کہانی کار : سید سبطین جعفری
تصویرمیں نظر آنے والی چا ئے یا قہوہ کی چینک ہے ۔ جو 1930 میں راولپنڈی میں خرید گئی ۔ مگر ابھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے ۔ یہ چینک تانبے کی بنی ہے۔ اور پیر سید محمد صدیق شاہ ندوی اور کشمیری مصنف سید بشیرحسین جعفری کے آبائی گھر سوہاوہ شریف باغ ، آزاد کشمیر میں موجود ہے۔ یہ ہمارے دادا پیر سید محمد ایوب شاہ صاحب نے خریدی اور استعمال کی ۔ اس کے ڈھکن پر پیرایوب شاہ کانام بھی کندہ ہے ۔ اسے سماوار کہتے ہیں ۔ یہ روایتی کشمیری کلچر کا اہم حصہ ہے ۔جب حضرت سید امیر کبیر علی ہمدانی کشمیر میں تشریف لائے تو ان کے ساتھ ہزاروں ہنرمندلوگ بھی تھے، جو ہینڈی کرافٹ ، قالین بافی اور ضرورت کی دیگر اشیاء بنانے کے ماہر تھے۔ مقامی لوگوں نے بھی ان سےکام سیکھا توان کے روز گار کا مسئلہ بھی حل ہوا ۔ سماوار کو بنانے اور استعمال کا اصل مرکز بخارا تھا ۔ اس سماوار کے درمیان میں ایک چمنی ہے جس میں کوئلے ڈال دیے جاتے ہیں۔ اور گول سماوار میں پانی دودھ اور پتی ڈال کر اوپر والے چھوٹے ڈھکن کوکھول دیا جاتا ہے۔ تاکہ ہوا گزر سکے اور کوئلے سرخ رہیں اور اس میں جب چائے یا قہوہ بنتا ہے تو اس کی خوشبو دور تک محسوس کی جاتی ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.