سجل راجہ
میری پیدائش کے ساتھ ہی میری ماں کے غم بڑھ گے تھے کہ اسے اب اپنے پیٹ کے ساتھ میرے پیٹ کے لیے بھی روٹی ڈھونڈنی تھی۔ میں بڑا ہوا تو مجھے اپنے باپ کا نام تو معلوم نہ تھا لیکن ہر اس چوک اور چوراہے کا نام معلوم تھا جہاں کسی وقت پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے روٹی تقسیم کی جاتی تھی۔ یہ تقسیم کنندہ بھی ہم غریبوں کو اتنا غریب سمجھتے ہیں کہ اپنی انا کا بوجھ ہم پر ڈالنے کے لیے کبھی قطار میں کھڑے کر کے بھوک سے کم دیتے ہیں ۔کبھی ہجوم میں لٹاتے ہیں ،کبھی ہمارے چہرے اور آنکھوں کی کہانی کو کیمرے کی آنکھ میں مخفوظ کرتے ہیں پھر یہ فوٹو انہیں دکھاتے ہیں جو ان سے بھی بڑھ کر انا پرست ہیں۔ جتنا فقر زدہ چہرہ ہو گا اتنا زیادہ پیسہ ان کی جیب میں آۓ گا یعنی ہماری غریبی ان کو امیر بنا رہی ہے۔
خیر چھوڑئے جن کا کھاتے ہیں ان کے گن گاتے ہیں ۔ میں بتا رہا تھا کہ میں باپ کا نام نہیں جانتا وہ اس لیے کہ میری پیدائش سے پہلے ہی میرا باپ ان امیروں کی عمارتوں کو اور اونچا بنانے میں مصروف تھا کہ پاؤں  پھسلا ،پانچ منزل سے نیچے آن گرا، گرتے ہی مجھے پیدائش سے پہلے یتیم کر گیا۔  میری ماں کے لیے میرے باپ کا مرنا اور ساتھ ہی میری پیدائش  آفت ثابت ہوئی۔ اب کشکول ہاتھوں میں تھامے ماں ہر چوراہے پر روٹی کا انتظار کرتی ہے اور میں بھی ساتھ دیتا ہوں۔ مجھے روٹی اتنی عزیز تر تھی کہ کسی شادی ہال میں بچے ہوۓ کھانے کو یوں چھپاتا ہوں جسے کسی امیر زادے کے اثاثے ہوں۔ مجھے عزتِ نفس کی نہیں پیٹ کی فکر ہے یعنی میرا مسلہ صرف روٹی ہے جب تن میں لگی ہو من کو کون دیکھتا ہے؟

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact