نسیمِ سحرؔ

                    بھلا کس نے وہ مشہور غزل نہیں سنی ہو گی ’’بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں، تنہائی جنہیں دہراتی ہے‘‘۔کوئی قلمکار جب ان بیتے ہوئے دنوں کو دہراتا ہے تو اپنی یادداشت اور قلم کا سہارا لے کر اسے اپنی خود بیتی یا خود نوشت کی صورت میں محفوظ کر لیتا ہے۔ حال ہی میں کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی قلمکار خاتون کی موصول ہونے والی دلچسپ خود نوِشت پر قلم اٹھا رہا ہوں جن سے کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ اب رابطہ ہے تو بس واٹس اَیپ پرَ۔

                    نصرت نسیم کے اندازِ بیان کا معترف تو میں تبھی ہو گیا تھا جب انہوں نے میری کتاب ’’تقاریظ و مضامینِ حمد و نعت‘‘ پر سہ ماہی ’’تخلیق‘‘ میں ایک نہایت ہی عمدہ تبصرہ کیا تھا۔حالانکہ مَیں تو تب تک اُن سے واقف ہی نہ تھا۔ یہ عقدہ تو بعد میں کھلا کہ ’’تخلیق‘‘کے مدیر سونان اظہر جاوید نے میری کتاب تبصرے کے لیے انہیں بھیجی تھی۔ بعد میں ان سے تفصیلی تعارف بھی ہوا اورکچھ دن بعد اُن کی خودنوِشت ’’بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں‘‘ موصول ہوئی تب اُن کے جوہر مجھ پر کھلے۔

                    ’’بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں‘‘ میں ظاہر ہے کہ’تنہائی جنہیں دہراتی ہے‘ کا لاحِقہ لگنے سے ہی بات مکمل ہوتی ہے۔اور اس کتاب کی دو مرتبہ خواندگی کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ ان کی اِس کتاب کا ماخذ ان کے وہ روزنامچے ہیں جنہیں وہ عرصۂ دراز سے لکھتی آئی ہیں چنانچہ اس ماخذ کے استناد پر شک کا تو کوئی سوال ہی نہیں، اور ’’تنہائی جنہیں دہراتی ہے‘‘ میں جو تکرار کا احساس ہے، وہ اس پوری خود نوشت میں ایک خوبصورت صنعتِ تکرار کے تحت پایا جاتا ہے کہ وہ اس میں کئی مرتبہ کہتی ہیں کہ ’یادوں کا اک پشتارہ ہے، پٹاری ہے، بارات ہے کہ ایک سے ایک یاد بڑھتی چلی آ رہی ہے۔۔‘‘ کتاب میں کئی جگہوں پر انہوں نے اِس صنعتِ تکرار سے عمدگی کے ساتھ کام لیا ہے۔ گویا نثری صنعتِ تکرار کی موجد بھی نصرت نسیم کو ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اور اس خود نوِشت میں ان کی یادوں کا پشتارہ ۱۹۶۵ء سے آغاز ہوتا ہے اور اس میں ذاتی،خاندانی، ازدواجی، تدریسی،سماجی، معاشرتی، تعلیمی اورسیاسی حوالے سے بے شمار اہم اور قیمتی یادیں ہمارا دامنِ دل کھینچتی جاتی ہیں۔ان سب معاملات کا جن میںکچھ رشتہ داروں اور رشتوں کا بھی ذکر ہے، ایسے نرم اور میٹھے لہجے میں ذکر کیا گیا ہے کہ جن سے قاری کچھ کچھ اس کرب کا اندازہ بھی کر سکتا ہے جو ان رشتوں کو نبھانے میں مصنفہ کو پیش آئی ہوں گی۔ اپنی یادداشتوں، محسوسات اور کیفیات کو وہ  اپنی دلچسپ اورسادہ زبان میں مگر خوبصورت نثری کمال سے قرطاس پر اُتارتی گئی ہیں، اور اس خود نوشت کو ایک انفرادی منظر نامے کے ساتھ اجتماعی منظرنامہ بنانے میں بھی مکمل طور پرکامیاب رہی ہیں۔ یہیں سے علم ہوتا ہے کہ ُان کی جائے پیدائش کوہاٹ ہے جو احمد فراز اور جسٹس اے آر کیانی مرحومین کے علاوہ یارِ عزیز شجاعت علی راہی جیسے صاحبانِ قلم کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔میں اب یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد کوہاٹ کی ایک وجہِ شہرت نصرت نسیم بھی ہوں گی۔

                    یہ کتاب اُردو میں لکھی گئی ہے مگر اس کا کمال یہ ہے کہ اس میں ہندکو اور پشتوزبانوںکے بیشمار الفاظ کو اُردو میں نہایت سلیقے سے پرو کر اُردو زبان کے دامن کو وسیع کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں ہندکو ثقافت کی، رسم و رواج کی اور تہذیب کی جو عکاسی کی ہے اسے پڑھ کر اپنے پیارے وطن پاکستان سے بھی میرا عشق دو چند ہو گیا ہے کہ وہ رسالپور، چارسدہ یا پشاور کے حوالے سے جو صوبۂ خیبر پختونخواہ کے رہن سہن کا مجموعی اوررنگا رنگ ماحول بیان کرتی ہیں وہ مُجھے راولپنڈی اور دیگر کئی شہروں کے علاوہ مضافات کے ماحول اور روایات سے کچھ بہت مختلف نہیں لگتا۔ گویا مجموعی طور پر ہماری ثقافت بھی ایک لگتی ہے۔ یوں نصرت نسیم نے بین الصوبائی ہم آہنگی کے فروغ میں بھی اہم کردار اداکیا ہے۔

                    نصرت نسیم بظاہر شاعرہ نہیں ہیں، مگر ان کے اندرون ایک شاعرہ موجود ضرور ہے جو اس کتاب میں نثری حمد کی والہانہ عقیدتی تحریر سے اپنا اظہار کر رہی ہے، اور مختلف ابواب میں بھی عنوان یا ذیلی عنوان کے طور پر انہوں نے ایسے ایسے خوبصورت مصرعے لکھے ہیں جو اُن کے نہیں مگر اُن کے شعری ذوق کا برمَلا اعلان کرتے ہیں۔اُن کی کتاب یاد نگاری کے ساتھ ساتھ ایک لحاظ سے ان کی نستلجیائی کیفیات کی ترجمان بھی ہے۔اور کوئی خود نوِشت اگر اس کیفیت سے محروم ہو تو پھر اس کی اثر پذیری کم ہو جاتی ہے کہ اس کیفیت کے بغیر تحریر محض ایک بیانیہ ہی رہ جاتی ہے۔

                    وہ چونکہ کچھ عرصے تک بلدیاتی کونسلر بھی رہی ہیں اس لئے اس خود نوِشت میں کئی سیاسی شخصیات کی تصاویر بھی ہیں اور واقعات بھی۔ سقوطِ ڈھاکہ کا المناک تذکرہ پڑھ کراور جنرل نیازی کی ہتھیار ڈالنے کی تصویر دیکھ کرہر قاری کی آنکھ میں آنسو آ جائیں گے۔ سیاستدانوں کے ذکر میں یہ دلچسپ بات بھی پڑھی کہ سہون شریف میں دنیا کے طویل ترین انسا ن عالم چنا نے مزار شریف پر وفد کا استقبال کیا۔ اور پھر دھمال ڈالنے کی تقریب میںجو بیگم عابدہ حسین کی فرمائش پر ترتیب دی گئی، نصرت نسیم نے دیکھا کہ صوفے کے وسط میں بیٹھی عابدہ حسین بڑا سا سگار پیتے ہوئے بلاتکان بولے چلی جا رہی تھی، جب کہ اس کے برعکس اس کے سیاستدان شوہر فخرِ امام حسب ِ عادت خاموشی سے خشک میوہ جات کھا رہے تھے، یہاں نصرت نسیم کی قوتِ مشاہدہ کی بھی داد دینی پڑتی ہے۔

                     اس خود نوِشت میں شامل کچھ معروف قلمکاروں کی آراء کا ذکر کئے بغیر شاید کتاب پر اظہارِ خیال مکمل نہ ہو۔ ان میں صفدر ہمدانی، ڈاکٹر محسن مگھیانہ، شجاعت علی راہی، ناصر علی سید، سعود عثمانی، ڈاکٹر ثروت رضوی، غلام حسین غازی جیسے صاحبانِ کمال شامل ہیں۔ان تما م کی قیمتی اور پُر فکر تحاریر سے مختصر سے اقتباس پیش کرنا اس کالم کی محدود گنجائش کے سبب مشکل ہے۔تاہم کچھ اہم آراء میں اپنی رائے بھی شامل کر کے نذرِ قارئین کر رہا ہوں۔

                     جناب صفدر ہمدانی رقم طراز ہیں کہ ان کے اصرار پر نصرت نسیم یہ خودنوِشت لکھنے پر آمادہ ہوئیں۔ ’’انہوں نے اپنی یادوں کو قرطاس و قلم  کے ذریعے متحرک فلم کی شکل دی ہے۔۔سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے کو عہدِ حاضر سے منسلک کر کے ایک بہت بڑا کام کیا ہے۔۔‘‘ چنانچہ ہم پر نصرت نسیم کے ساتھ جناب صفدر ہمدانی کا شکریہ ادا کرنا بھی واجب ہے۔

                     ناصر علی سید لکھتے ہیں کہ جب میں اس کی خود نوشت کے اُس باب تک پہنچا جس میں’اچھوَینی‘ کا ذکر ہے، یہ حلوہ کھایا نہیں پیا جاتا تھا، چنانچہ اسی حوالے سے ناصر علی سید کواپنی والدہ کی یاد آ جاتی ہے جو انہیں ایسی ہی اچھوینی تیار کر کے دیتی تھیں۔اس پر مجھے بھی  سردیوں کی راتوں کی یہ لذیذ’میٹھی ’ڈرِنک‘ یاد آ گئی جو مَیںوالدۂ مرحومہ سے فرمائش کر کے بنوایا کرتا تھا،جسے پنجابی میں چھوہانی کہا جاتا ہے۔ دیکھئے ہماری ثقافت اور لسانی ہم آہنگی بنیادی طور پر کس قدر مشترک ہے۔ البتّہ اسی کتاب میں پڑھے ہوئے ایک اور پکوان کے ذکر نے مجھے حیرت زدہ کر دیا اور اس کا ذکر پہلی مرتبہ اسی کتاب میں پڑھ رہا ہوں۔ اس پکوان کو’پایوں کا حلوہ‘ کہا جاتا تھا جسے شدید سردی میں پکایا جاتا تھا اور جسے بنانا جس قدر مشقت طلب کام تھا، شاید کھانا اس سے بھی زیادہ مشکل کہ انتہائی ثقیل، چربیلا یہ پکوان سریش جیسی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ نصرت نسیم اس ڈِش کے ذکر سے للچا کر شاید ہماری حوصلہ شکنی کرنے کے لیے کہتی ہیں:’’آج کے لوگ تو اِس خوراک کو ہضم ہی نہیں کر سکتے اور کولسٹرول اور بی پی کے ڈر سے کوئی شاید کھائے بھی نہ۔‘‘ برسبیلِ تذکرہ، کاش کوئی از سرِ نو پایوں کا حلوہ بنانے کی   مشقت برداشت کر کے اسے بنائے، اور ہمیں کھلائے، چونکہ ہمیں پہلے ہی کولسٹرول اور بی پی کے ساتھ دیگر کئی بیماریاں بھی لاحق ہیں، اس لیے بنانے والے پر یا کھلانے والے پر کوئی الزام نہ آئے گا۔

                    ۲۸۰ صفحات پر مشتمل اس خود نوِشت کے تیسویں اور آخری باب کو نصرت نسیم کی کتابِ زندگی کا آخری باب نہ سمجھا جائے کہ  پیش لفظ میں وہ لکھتی ہیں ’’اب تک جتنا لکھا ہے وہ بچپن، یادِ رفتگاں، تعلیم، شادی، بچے، کونسلر شپ، وغیرہ پر مشتمل یادوں کا سلسلہ ہے، ابھی اِس کے آگے دو چار سخت مقامات اَور بھی ہیں۔ ان سب لمحات کو آپ کے سامنے لانے کے لیے آپ سب کی دعاؤں کی طالب اور آپ کی آراء کی منتظر۔۔۔‘‘                   چنانچہ نصرت نسیم صاحبہ، امید ہے آپ نے اپنے تخلیقی اضطراب کے تحت اس کا آغاز کر دیا ہو گا، تا کہ یہ دلچسپ خود نوِشت پڑھ کر جس تشنگی کا احساس ہو رہا ہے اس کا کسی حد تک ازالہ ہوسکے۔ اللہ کرے زورِ قلم اَور زیادہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content