گورنمنٹ ماڈل سائنس کالج راولاکوٹ کا دورہ وادی نیلم۔ پروفیسر محمد ایاز کیانی

You are currently viewing گورنمنٹ ماڈل سائنس کالج راولاکوٹ  کا دورہ وادی نیلم۔ پروفیسر محمد ایاز کیانی

گورنمنٹ ماڈل سائنس کالج راولاکوٹ کا دورہ وادی نیلم۔ پروفیسر محمد ایاز کیانی

رپورٹ ::: پروفیسر محمد ایاز کیانی

کشمیر جنت نظیر ہے۔یوں تو اس وادی کا قریہ  قریہ اپنی خوبصورتی،دیو مالائی حسن  اور سحر انگیز دلکشی کی وجہ سے سے اپنی مثال آپ  ہے مگر اگر وادی نیلم  کو حسن کی دیوی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔آسمان سے باتیں کرتے بلند و بالا پہاڑ دلکش  اور دیدہ زیب وادیاں  اور دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ سفر کرتے انتہائی مسحور کن مناظر ایک زبردست اور کارساز  دست ہنر مند کی صناعی کے شاہکار ہیں۔۔یہ مناظر اتنے دلکش ہیں کہ انسان کا دل کرتا ہے کہ ان حسین مناظر کو اپنی آنکھوں میں بسا لے اور ہمیشہ ان کے سحر میں ڈوبا رہے ۔۔۔ یہ آزاد کشمیر کا رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ضلع  ہے جو 1398 مربع میل رقبے کو محیط ہے۔۔مگر آبادی  کافی کم ہے اور گھر ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر واقع  ہیں یہ آزاد کشمیر کا واحد ضلع ہے جس کی سرحدیں ایک طرف بھارتی مقبوضہ کشمیر کے تین اضلاع بارہ مولہ،کپواڑہ اور بانڈی پورہ سے ملتی ہیں تو دوسری طرف گلگت اور  پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ملتی ہیں۔۔ آٹھمقام ضلعی صدر مقام  اور تحصیل ہے جب کہ دوسری تحصیل شاردہ ہے۔۔کشمیری شینا  کنڈل شاہی اور پہاڑی علاقائی زبانیں ہیں تاہم لب و لہجہ میں ہر دس کلومیٹر کے بعد ایک بدلاؤ آ جاتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے آنے والا دریا کشن گنگا تاوبٹ کے مقام پر وادی نیلم میں داخل ہوتا ہے اور آزاد کشمیر میں یہ دریائے نیلم کے نام سے جانا پہچانا اور لکھا جاتا ہے ہے ضلع بھر کی واحد قابل ذکرسڑک نیلم روڈ کہلاتی ہے جو مظفرآباد سے کیل اور تاؤ بٹ تک جاتی ہے۔۔ضلع نیلم کے اہم مقامات میں چلہیانہ،باڑیاں،لیسوا،جورا،کنڈل شاہی ،کٹن،بابون ویلی،شاہکوٹ،آٹھمقام،کیرن ،اپرنیلم،نگدر،لوات،دواریاں،رتی گلی جھیل،دودھنیال ،شاردہ،سرگن،کیل اور اڑنگ کیل قابل ذکر ہیں۔۔۔۔

نیلم میں 88 دیہات ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ضلع کی آبادی ایک لاکھ پچھتر ہزار(175000) ہے..آزاد کشمیر کے باقی اضلاع کی نسبت یہاں شرح خواندگی نسبتاً کم ہے۔دودھنیال شاردہ اور کیل میں کالجز قائم ہیں جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے کافی تعداد میں سکول بھی موجود ہیں۔

یہاں مکئی،آلو اور پھلوں میں آخروٹ کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔

وادی نیلم میں داخل ہوتے ہی دیگر تمام نیٹ ورکس کی سمیں بند ہو جاتی ہیں جبکہ صرف ایس کام کی سمیں چلتی ہیں کیرن کے علاقے میں نیٹ ورک کا شدید مسئلہ ہوتا ہے اور بات کرنے میں کافی دشواری ہوتی ہے جبکہ باقی علاقوں میں میں صورتحال نسبتاً بہتر ہے۔۔۔۔بارڈر کا علاقہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ آرمی کی چیک پوسٹیں ہیں جہاں تمام مسافروں کا ڈیٹا نوٹ کیا جاتا ہے۔۔ زیادہ تر آبادی شاردہ، کیرن اور کیل میں ہے جبکہ باقی علاقوں میں آبادی نسبتاً کم  ہے۔ گھروں کی تعمیر کا اسٹائل کم و بیش سارے علاقوں میں ایک جیسا ہے زیادہ تر مکانات دومنزلہ اور بعض تین چار منزلہ بھی ہوتے ہیں۔ مکانات کی تعمیر میں میں لکڑی کا استعمال سب سے زیادہ ہے پہلے لکڑی کے پلرز پر عمارت کا اسٹریکچر تیار کیا جاتا ہے چھت ٹین کی جستی چادروں سے جبکہ دیواریں کنکریٹ سے تیار کی جاتی ہیں۔۔ سب سے نیچے والی منزل عموماً مال مویشیوں کی رہائش کے لئے استعمال کی جاتی ہے جبکہ باقی حصہ میں گھر کے مکین رہائش پذیر ہوتے ہیں۔۔

مقبوضہ کشمیر  کے جو علاقے دریا کے پار واضح نظر آتے ہیں ان میں کیرن اور ٹیٹوال  شامل ہیں یہاں پر گھروں کی تعمیر کا وہ اسٹائل ہے جو آزاد کشمیر میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاردہ، کیرن  اور کیل میں سیاحوں کی رہائش اور کھانے پینے کے لئے کافی تعداد میں ریسٹ ہاؤسز اور ہوٹلز موجود ہیں جہاں مناسب ریٹس پر کھانا اور رہائش میسر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سفر ہمیشہ سے ہی اہل ذوق کی دلچسپی کا باعث رہا ہے قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے۔”سیرو فی الارض”  مگر سفر آخر سفر ہے جہاں گھروں میں قیام کی سہولیات میسر نہیں ہوتی ہیں۔ابن انشاء نے ایک جگہ لکھا ہے “سفر میں اپنے اسباب سفر کے ساتھ ساتھ اپنے ناز نخرے بھی خود ہی اٹھانے پڑتے ہیں۔مگر بعض سر پھروں کو خاک چھاننے کا اس قدر شوق ہوتا ہے کہ وہ تمام تر تکالیف اور صعوبتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صحراؤں اور کہساروں کے کھوج پہ نکل پڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔

تو صاحبو! اسی ذوق سفر کو لے کر گورنمنٹ ماڈل سائنس کالج راولاکوٹ کے سال دوم کے طلباء کا سیاحتی دورہ 23 سے 25ستمبر 2021کو ترتیب دیا گیا۔۔تفریحی دورے کا آغاز صبع نو بجے کالج کیمپس سے ہوا۔۔

پرنسپل ادارہ نے تمام طلباء کو سفر سے متعلق ہدایات دیں اور سفر کے دوران ڈسپلن قائم رکھنے پر زور دیا۔۔۔۔سفر کی اجتماعی دعا کے بعد آغاز سفر کیاگیا۔۔راولاکوٹ سے نکل کر براستہ پانیولہ،ارجہ ،دھیرکوٹ دن کے ایک بجے مظفرآباد چہلہ بانڈی پہنچے۔یہاں پر نماز اور کھانے کا وقفہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کھانے کے بعد سہ پہر تین بجے ہماری گاڑی ایک دفعہ پھر شہر اقتدار کو پیچھے چھوڑتے ہوئے شاہراہ نیلم پر رواں دواں تھی۔راستے میں پٹہیکہ سے ہوتے ہوئے دھنی آبشار کے پاس گاڑی کچھ دیر کے لیے روکی گئی جہاں طلباء نے ٹھنڈی آبشار کے ساتھ تصاویر بنائیں اور کچھ دیر تفریحِ کے بعد ہمارا سفر ایک بار پھر شروع ہوا۔بلگراں اور پھر جاگراں ہائیڈل پاور سٹیشن سے ہوتے ہوئےعصر کے وقت ہمارا قافلہ چلہیانہ کراسنگ پوائنٹ سے گزرا۔اس دوران کسی طالب علم نے بتایا کہ سامنے دریا پار ایک عمارت پر بھارتی جھنڈا لہرا رہا ہے۔تو ایک دم جذبات میں ایک طلاطم کی کیفیت پیدا ہوگئی۔منٹو نے اسی مقام اور جبری تقسیم کے حوالے سے اپنا شہرہ آفاق افسانہ “ٹیٹوال کا کتا”لکھا تھا۔ہمارے سامنے وہ سرزمین تھی جو برسوں سے پنجہ اغیار میں جھکڑی ہوئی ہے۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ وطن کے دامن پر جب خونی لکیر کھینچی گئی توگویا خونی رشتوں کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی گئی۔تمام تر رشتے داریوں اور ذہنی قربتوں کے باوجود ایک دوسرےکو حسرت سے دیکھ تو سکتے تھے مگر ملاقات سے معذور تھے۔۔ایک خونی لکیر ہے جو بھائیوں کے درمیان کھنچ دی گئی ہے۔

یہ سوچتے ہوئے دلفگار ہوا چاہتا جاتا تھا کہ جب بارڈر پر حالات کشیدہ ہوتے ہوں گے تو دونوں اطراف کے  بے بس انسانوں کی حالت زار کیا ہوگی۔۔۔۔۔۔

انہی سوچوں میں گم سفر گزرتا رہا اور ہم تھوڑی دیر کے بعد کنڈل شاہی بازار میں رکے جہاں عصر کی نماز ادا کی ۔نماز کی ادائیگی کے بعد ہمارا سفر ایک دفعہ پھر رواں دواں تھا۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد ہمارا قافلہ وادی نیلم کے مرکزی مقام آٹھمقام پہنچا۔۔یہاں سے چند کلومیٹر کے بعد ہمارا قافلہ کیرن سیکٹر پہنچ گیا۔یہاں پر ملٹری چیک پوسٹ ہے جہاں تمام مسافروں کا ریکارڈ درج کیا جاتا ہے۔ریکارڈ کے اندراج کے بعد جب ہم گاڑی میں سوار ہونے کے لیے آگے بڑھے تو ایک دفعہ پھر بھارتی  مقبوضہ کشمیر کا علاقہ کیرن عین دریا کے ساتھ متصل موجود تھا۔۔۔۔ وہی طرز تعمیر ایک ہی طرح کے پہاڑ رہہن سہن اور کلچر مگر دریا کے دو کناروں کی طرح ازلی دوری۔ایک دفعہ پھر ضبط کے بندھن چھلک پڑے۔بچپن اور لڑکپن سے سنے تحریک آزادی کشمیر کے ترانے لبوں پہ مچلنے لگے۔تیری وادی وادی گھوموں،جاگو جاگو صبح ہوئی،اور اے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن ۔ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن۔۔

اسوقت اندھیرا چھا چکا تھا اور ہم انہی سوچوں میں مستغرق پی سی ریزارٹ ہوٹل پہنچے جہاں پہلے سے بکنگ ہو چکی تھی۔۔۔کچھ دیر کے بعد لذت کام و دہن کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔

دوسرے دن سات بجے ہمارا قافلہ ایک دفعہ پھر دواریاں  سے ہوتا ہوا دودھنیال اور پھر راستےمیں چند مقامات پر مختصر ٹھہراؤ کے بعد تقریباً دس بجے  شاردہ پہنچا۔شاردہ کے مقام پر دریائے نیلم کا پاٹ کافی چوڑا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ طویل سفر اور دو طرفہ پہاڑوں کے درمیان گھٹن کی وجہ سے تھک چکا ہےاور اس نسبتاً کھلی فضامیں آرام کرنا چاہتا ہے۔۔نجانے ظلم کے کیسی کیسی داستانیں یہاں کے باسیوں کو سنانا چاہتا ہے۔اس جگہ پر سیاحوں کی تفریح کے لیے کشتیوں کی سواری کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ 

یہاں پر ناشتہ کیا گیا اور پھر لکڑی کے بنے ہوئے پل کو پار کرکے دریا کی دوسری طرف بازار سے ہوتے ہوئے” شاردہ یونیورسٹی” دیکھنے پہنچے ۔۔۔اس درسگاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے سارے ہندوستان سے جوئندگان علم اس درس گاہ کا رخ کرتے تھے۔مرکزی مقام تک پہنچنے کے لیے بڑے بڑے پتھروں کو تراش کر سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔۔۔

تقریباً ایک بجے تمام طلباء گاڑی میں سوار ہو گئےاور کیل کی طرف رواں ہوگئے۔۔دواریاں سے آگے کیل تک سڑک کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔ایک تو سڑک کا ٹریک کچا ہے دوسرے بعض جگہوں پر سڑک اس قدر تنگ ہے کہ ہر لمحہ یہ دھڑکا اور خوف دامن گیر رہتا ہے کسی بھی وقت زرا سی غفلت یا مشین کی خرابی آپ کو دریا کی تیز و تند لہروں کے حوالے کر سکتی ہے۔ایک طرف دریا اور دوسری طرف انتہائی خوفناک پہاڑ گاڑی پر اوندھے پڑھے ہوتے ہیں یوں لگتا ہے کہ گاڑی کسی بھی وقت ان پہاڑوں سے ٹکرا جائے گی۔

اس قدر خطرناک روڈ پر ہر سال سینکڑوں لوگ پہاڑوں کے سرکنے اور لینڈ سلائیڈنگ سے دریا کی تیز موجوں کی نذر ہو جاتے ہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ چیک پوسٹوں پر دیگر کوائف کے علاوہ گھر کے کسی فرد کا رابطہ نمبر بھی ضرور نوٹ کیا جاتا ہے ہے تاکہ کسی ممکنہ حادثے کی صورت میں گھر والوں کو اطلاع  دی جا سکے۔۔۔

اس خوفناک صورتحال کے ساتھ ساتھ دریا کے دونوں طرف بلند و بالا پہاڑوں اور دیار کے درختوں سے ڈھکے ایسے دلفریب مناظر ہیں کہ آنکھیں ان مناظر کو دیکھ کر ان کے سحر میں کھو جاتی ہیں  ہیں۔۔سبحان اللہ۔اتنے دلکش مناظر کہ جی چاہتا ہے انسان ادھر ہی بسیرا کر لے اور ان مناظر کو آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راستے میں ایک جگہ  ایک مسافر گاڑی کے سڑک کے بیچ خراب ہونے کی وجہ سے دونوں طرف سے ٹریفک کی لمبی لائنیں لگ گئیں اور تقریباً دو گھنٹے کے بعد گاڑی کو سائیڈ پر کر کے ٹریفک کو رواں دواں کیا گیا۔ٹریفک کھلنے کے بعد مارگلہ آبشار کے پاس چند منٹوں کے لئے گاڑی کو روکا گیا جہاں پر بچوں نے ہلکی پھلکی  تفریح کی اور پھر ہمارا سفر ایک دفعہ پھر آگے کی طرف رواں ہو گیا۔۔۔  تین بجے ہمارا قافلہ کیل  شہر میں پہنچ گیا بوائز انٹر کالج کے پاس گاڑی کو پارک کیا گیا۔۔۔  یہاں سے چند منٹ کی پیدل واک کے بعد تمام طلباء اس مقام پر پہنچے جہاں سے کیبل کار کے ذریعے دریا کے پار جانا تھا۔یہاں سے ٹکٹ لیے گئے اور کچھ دیر کے بعد طلباء باری باری کیبل کار کے ذریعے تین منٹ کی مسافت کے بعد دریا کے پار دیار کے جنگل میں اترے۔۔یہاں سے نوے درجے کی سیدھی چڑھائی کے بعد تقریباً بیس منٹ کی مسافت کے بعد سب لوگ وادی نیلم کے سب سے خوبصورت گاؤں اڑنگ کیل پہنچے۔۔مختصر سی آبادی پر مشتمل یہ گاؤں اپنی دلفریبی اور خوبصورتی کی وجہ سے زمین پر جنت کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔ایک طرف دیار کے جنگلات،دوسری طرف پہاڑوں سے ڈھکی وادی اڑنگ کیل اس قدر حسین اور جاذب النظر ہے کہ آنکھوں کے لیے خیرہ کن مناظر پیدا کرتی ہے۔۔اس وقت شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔مگر کسی کو یہاں سے اٹھنے کا جی نہ چاہتا تھا۔بہت مشکل سے تمام طلباء کو جمع کیا گیا ۔وقت کی کمی کے باعث طلباء نے ان حسین مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا تاکہ گھر پہنچ کر ان مناظر کو تفصیل سے دیکھ سکیں۔یہ اس قدر حسین وادی ہے کہ کراچی اور لاہور سے آئے مرد اور خواتین سیاح جان لیوا چڑھائی کے بعد یہاں پہنچ کر راستے کی ساری کلفتیں اور تکالیف بھول جاتے ہیں۔یہاں پر سیاحوں کے لئے ریسٹ ہاؤسز بھی موجود ہیں بعض سیاح رات یہیں بسر کرتے ہیں اور دوسرے دن واپسی کا سفر اختیار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اڑنگ کیل کے ساتھ ساتھ کیل بھی اپنی دلفریبی میں ایک شاہکار ہے۔چاروں طرف سے خوبصورت پہاڑوں میں گھرے لینڈ سکیپ کی وجہ سے اس شہر کے مناظر بھی آنکھوں کو طراوٹ مہیا کرتے ہیں۔۔

واپسی پر ہر سو اندھیرا چھا رہا تھا۔مناظر دھندلا رہے تھے۔ہر کوئی جلد از جلد منزل پہ پہنچنا چاہتا تھا۔کیبل کار کے پاس واپسی کے مسافروں کی ایک لمبی لائن تھی۔مگر یہاں پر بھی وہی روایتی ہتھکنڈے اور ریفرنسز کا استعمال،اداروں کے افراد کے لیے قطار سے استثنیٰ کی رسم بد ،یہاں بھی خواص اور عوام کے لیے جدا جدا اصول رائج تھے۔کاش کبھی وہ وقت بھی آئے جب کوئی مقدس نہ ہو اور میرٹ پہ ہر کام انجام پائے۔۔رات پونے سات بجے سب طلباء گاڑی میں سوار ہو چکے تھے اس طرح واپسی کا سفر شروع ہوا مسلسل اور طویل سفر کے بعد رات بارہ بجے آٹھمقام کھانے کے لیے رکے۔۔کھانے سے فراغت کے بعد ایک بجے ایک دفعہ پھر واپسی کے لیے رخت سفر باندھا گیا۔صبح چار بجے ہمارا قافلہ ایک دفعہ پھر بیس کیمپ میں تھا۔۔۔۔یہاں کچھ دیر آرام کے بعد ہمارا سفر پیر چناسی کی اور رواں تھا۔بارہ بجے پیر چناسی پہنچے۔پیر چناسی سطح سمندر سے 9500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔شہر اقتدار اس کے قدموں میں ہے۔یہاں تک نہایت اچھی روڈ تعمیر کی گئی ہے راستے کے سارے مناظر قابل دید ہیں۔البتہ ٹاپ پر مناظر توقع کے مطابق نہ پاکر قدرے مایوسی ہوئی۔یہاں پر پیر صاحب کے مزار کے ساتھ ایک مسجد ،ایس سی او کے دفاتر اور چند ضروریات کی دکانیں ہیں۔تقریبا ایک بجے ہم ایک دفعہ پھر مظفرآباد کی طرف عازم سفر تھے۔۔دو بجے چھتر کیڈٹ کالج کے سامنے ایک ریستوران میں دن کا کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کے بعد مری کی طرف چل دیے۔جب مری کی حدود میں پہنچے تو شام کے سائے منڈلا رہے تھے۔لوئر ٹوپہ کے مقام پر پاک فضائیہ کے مانو گرام کے ساتھ طلباء نے گروپ فوٹو بنوائے۔یہاں سے آگے ہیوی ٹریفک کا داخلہ ممنوع تھا لہذا گاڑی ادھر ہی پارک کر کے سوزوکیوں پہ مال روڈ کی طرف چل دیے۔مال روڈ جی- پی -او چوک سے تمام سیاحوں کے لئے بند کی گئی تھی۔عین سڑک کے درمیان میں کسی مذہبی جماعت کی کوئی تقریب ہو رہی تھی چالیسواں تھا یا کوئی اور تہوار۔۔مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی پورے ملک سے آئے سیاحوں کو خوار کر کے(جنھیں آپ کے پروگرام کے متعلق کوئی اطلاع نہ تھی)عین سڑک کی بیچ کون سی مذہیی خدمت بجا لا جا رہی تھی۔نہ جانے ہماری عقل کب ٹھکانے آئے گی؟اور ہم ایک باشعور قوم کب بنیں گے؟اسلام ایسی کسی بھی سرگرمی چاہیے وہ مذہبی ہو ثقافتی ہو یا کچھ اور کی اجازت ہرگز نہیں دیتا جس میں عامتہ الناس کو تکلیف ہوتی ہو۔۔۔۔۔۔

آخر میں اتنا کہنا ہے کہ ہمارے ملک کو قدرت نے بے تحاشا خوبصورتی،وسائل اور صلاحیتوں سے نوازا ہے۔مگر ان وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے محرومیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور عوام کی اکثریت حقوق سے محروم رہ جاتی ہے ۔۔۔۔

وادی نیلم آزاد کشمیر ہی نہیں پاکستان کی بھی خوب صورت ترین وادی ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں جو اس علاقے کے لوگوں کو روزگار بھی مہیا کرتے ہیں۔مگر بد قسمتی کی انتہا ملاحظہ ہوکہ ایک مناسب سڑک بھی اس علاقے کو میسر نہیں ہے۔

مظفرآباد سے تاؤ بٹ تک اگر معیاری روڈ تعمیر کی گئی ہوتو یہ سفر چار گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ہےمگر سڑک کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے یہ سفر دگنے وقت میں طے ہوتا ہے۔۔اگر اس سڑک کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کیا جائے تو سیاحوں کی تعداد دگنی ہو سکتی ہے اور اس علاقے کی ترقی کا سفر تیز تر ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کی زندگی بھی خوش حال ہو سکتی ہے۔۔۔۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.