محمدبرہان الحق
صفائی ہے انسان کی عظمت کا نور
صفائی سے پیدا ہو دل میں سرور
صفائی کشش کا سبب ہے عزیز
صفائی سے بڑھ کر نہیں کوئی چیز
صفائی تکمیل حکم رحمان ہے
صفائی سنت حبیب رحمان ہے
اسلام وہ مذہب ہے جو صفائی پسند ہے۔ جو انسان کو پیدائش سےموت تک صفائی کی تعلیم دیتا ہے۔ دین اسلام میں انسانی جسم کی صفائی سے لے کر گلی ، محلہ اور پوری قوم تک کے لیے صفائی کے احکامات موجود ہیں۔ حتٰی کہ انسان کی جملہ عبادات کا وضو سے مشروط ہونا صفائی کی اہمیت کو اجاگر کرتاہے۔
صفائی حکم ربی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مستقلہ ہے۔ صفائی روحانیت کی غذا ہے۔ اِسلام دین فطرت ہے۔فطرتِ صحیحہ کے سب اصول اور تقاضے اِسلام میں موجود ہیں ۔اِسلام نے صفائی پر بہت زور دیا ہے ظاہری صفائی ہویا باطنی صفائی دونوںکو اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے ۔کیونکہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے ۔ظاہری صفائی سے جسمانی صحت حاصل ہوتی ہے ۔جس سے باطنی صفائی کا حصول آسان ہو جاتا ہے اور جب باطن بھی صاف ہو جائے تو انسان روحانی غلاظتوں اور کثافتوں سے پاک ہو کر عبدخدا بن جاتا ہے ۔
فرمان الٰہی ہے:قُمْ فَأَنذِرْ ۔ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ۔ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجر۔المدثر:3تا6
اسلامی فقہ میں سب سے پہلے طہارت کا باب پڑھایا جاتاہے۔کیونکہ طہارت وصفائی کنجی نماز ہے۔اور نماز کنجی جنت ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صفائی پسند لوگوں کی تعریف کی ہے اس صفائی کی وجہ سے اللہ ان سے محبت بھی کرتا ہے۔اللہ فرماتا ہے :
لَمَسجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقوىٰ مِن أَوَّلِ يَومٍ أَحَقُّ أَن تَقومَ فيهِ فيهِ رِجالٌ يُحِبّونَ أَن يَتَطَهَّروا وَاللَّهُ يُحِبُّ المُتطَّهِّرينَ … سورة التوبة١٠٨
“جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی ،وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں عبادت کرو۔اس میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو پاک صاف رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ طہارت اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”
دوسرے مقام پر اللہ فرماتا ہے: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ … سورة البقرة۔٢٢٢
“بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور طہارت اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”
صفائی نصف ایمان ہے. ہم نے یہ جملہ کئی بار سنا ہے لیکن کیا ہم اس کی پیروی کرتے ہیں ؟اس کے مطابق عمل کرتے ہیں؟ نہیں کرتے ہیں حالانکہ کرنا چا ہیے صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت سارے مواقع موجود ہیں جبکہ ہم میں سے ان پر عمل بہت ہی کم لوگ کرتے ہونگے
صفائی کا مطلب ہے کہ کہیں گندگی, دھول یا بدبو وغیرہ آپ کے آس پاس نہ ہو. صفائی کے بدولت ہمیں خوبصورت ماحول ,اچھی صحت میسرہوتی ہے آس پاس کے اچھے ماحول ہونے سے بھی اچھے اور مبتم خیالات آتے ہیں جو بیماریوں کی موجودگی کو کم کرتے ہیں طہارت و صفائی ہماری روز مرہ کی زندگی میں ایک فرضی عمل ہے جسے ہمیں ادا کرنا لازمی ہے کیونکہ طہارت وصفائی کا نہ ہونا ہمیں ڈینگی, ٹائیفائڈ,ہپاٹائٹس جیسی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے-
زینت بزم کائنات، فخر موجودات، مرکز عقیدت، مصطفٰے جان رحمت ﷺکی درج ذیل احادیث پاک پڑھیں اوراسے سرمہء بصیرت بنائیں۔
“الطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ “۔”صفائی آدھا ایمان ہے”۔الطھور یعنی طہارت معنوی گندگی یعنی کفر وشرک اورگناہوں سے پاکی کا نام بھی ہے اور مادی گندگی یعنی جسمانی اور ظاہری گندگی سے پاکی کانام بھی۔چنانچہ طہارت کے بغیر نماز نہیں ہوسکتی۔اس میں کپڑے اور جسم کی صفائی بھی شامل ہے اور نماز سے قبل وضو کرنا بھی۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
“لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ ” ۔مسلم۔”اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا ہے۔”۔یہی وجہ ہے کہ احادیث کی کتب میں بے شمار صحیح احادیث ہیں،جو مختلف پہلوؤں سےصفائی ستھرائی کا حکم دیتی ہیں۔ذیل میں ایسی چند احادیث پیش کرتاہوں:
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ
“حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ يَغْتَسِلَ فِي كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا يَغْسِلُ فِيهِ رَأْسَهُ وَجَسَدَهُ “۔بخاری ومسلم۔
“ہرمسلمان پر اللہ کا حق ہے کہ سات دنوں میں ایک ایسا دن ہوکہ جس میں وہ اپنے سر اور بدن کو غسل دے۔”
اور یہ نہانا اور غسل کرنا اس وقت فرض ہوجاتا ہے جب انسان کے جسم پر ظاہری یا معنوی گندگی ہو۔اسی طرح بعض احادیث میں جسم کے مختلف اعضاء کی صفائی ستھرائی کی تلقین ہے۔مثلاً دانتوں اور منہ کی صفائی کی تلقین بہت واضح انداز میں یوں کی گئی ہے:
آقائے کریم ﷺنے فرمایا کہ۔”لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك مع كل صلاة”
۔بخاری،مسلم،ترمذی۔”اگر میرا یہ حکم امت پر گراں نہ ہوتاتو میں انھیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے (دانتوں کی صفائی) کاحکم دیتا۔”اسی طرح بالوں کی صفائی کا حکم اس انداز میں ہے:”من كان له شعر فليكرمه” ۔ابوداؤد۔”جس کسی کے بال ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ ان کی دیکھ بھال کرے۔”
مختار کون و مکان حضور نبی اکرم ﷺ نے دانتوں کی صفائی پر بھی خصوصاً زور دیا ہے حدیث ہے ۔عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِِ یَشُوْصُ فَاہُ بِاِلسِّوَاکِ
۔مسلم کتاب الطہارۃ حدیث:589۔
جب رسول کریم ﷺرات سے بیدار ہوتے تو مسواک کرتے۔
دوسری جگہ آپ ﷺنے فرمایا:
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِی لَاَمَرْتُھُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ
۔بخاری کتاب الجمعہ باب السواک والجمعہ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور ان کی نگاہ ایک ایسے شخص پر پڑی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کیا اسے کوئی ایسی چیز نہیں ملتی،جس سے یہ اپنے بال سنوار لے؟”
ایک دوسرے شخص پر نگاہ پڑی جس کے کپڑے گندے تھے۔آپ نے فرمایا:
“أَمَا كَانَ هَذَا يَجِدُ مَاءً يَغْسِلُ بِهِ ثَوْبَهُ”۔مسند احمد۔
“کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھولے۔”
ان احادیث کو پڑھ کر کوئی بھی شخص باخوبی سمجھ سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات سخت ناپسند تھی کہ انسان اس حالت میں رہے کہ اس کے بال بے ترتیب اور بکھرے ہوئے ہوں اور اس کے کپڑے گندے ہوں۔
اپنی صفائی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی گلی اور محلے کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھنا ہے ۔جگہ جگہ کوڑا کرکٹ پھینکنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ محلے میں جہاں کوڑا کرکٹ ہو گا وہاں مکھیاں آئیں گی اور ان مکھیوں سے بیماریاں پھیلے گی اور صحت متاثر ہوگی اس لیے مل جل کر محلے کی صفائی کا خا ص خیال رکھنا چاہیے ۔
جب انسان نے جسم کی طہارت کا اہتمام کرلیا، اس پر پاک و صاف کپڑے سجالئے اور اس جسم کو وضو اور غسل کے بعد عمدہ کپڑوں سے ڈھانپ لیا۔ اب ایسا شخص داخل صلوۃ ہوتا ہے۔ اس نے مقدور بھر ظاہری طہارت کا اہتمام کرلیا ہے۔ اپنے ظاہر کو موافق حکم شریعت کرلیا ہے۔ ظاہری نجاستوں اور غلاظتوں کوجسم اور لباس سے دور کرلیا ہے۔ اب اس ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ باطن کی طہارت و پاکیزگی بھی بہت ضروری ہے۔چہرے کے ساتھ ساتھ دل کی صفائی کا بھی خیال رکھنا چاہیئے کیونکہ دل تو اصل ایمان ہے۔ اقرار باللسان، ایمان کے لئے کافی نہیں جب تک تصدیق بالقلب کا عمل جاری نہ ہوجائے تو ایمان، ایمان نہیں بنتا۔
فقط ظاہر کی طہارت وصفائی کافی نہیں ہے بلکہ باطن کی طہارت وصفائی بھی لازمی ہے۔ اسلام میں تن کی صفائی کے سا تھ من کی صفائی پر بھی زور دیا گیا ہے باطن کی طہارت کو ایک مثال کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کوئی عمدہ عمارت بنائے، اس عمارت کی تعمیر کرائے، اب اس عمارت کا ایک ظاہر ہے اور اس عمارت کا ایک باطن ہے۔ ظاہر ہر کسی کو نظر آتا ہے اور باطن اسی کو نظر آتا ہے جو عمارت میں رہتا ہے اور جو اس میں آتا جاتا ہے۔ اگر اندر سے عمارت کھردری ہو اور باطن سے کام نہ ہوا ہو۔اندر کوئی زیب و زیبائش نہ ہو، فرش بھی نہ ہوں، پلستر بھی نہ ہوئے ہوں، رنگ و روغن بھی نہ ہوا ہواندر گندگی موجود ہو تو اس عمارت میں کوئی بسنے کے لئے آمادہ نہ ہوگا۔ اس لئے کہ اس کی طبیعت چاہتی ہے جس طرح عمارت باہر سے بے حدخوبصورت ہے اور اس سے بھی زیادہ خوبصورت اندر سے ہو۔ باہر کو اوروں نے بار بار دیکھنا ہے اور اندر کو اندر والے نے ہی دیکھنا ہے۔ اندر اندھیرا ہوجائے تو انسان روشنی کا متلاشی ہوجاتا ہے۔ گویا اندر کی عمارت بنی نہ ہو اور اس عمارت میں روشنی نہ ہو۔ انسان کا اس عمارت سے تعلق خاطر قائم نہیں ہوتا،ظاہری صفائی کے ساتھ باطنی صفائی کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے ۔ہمارے دل سے حسد ،غیبت،لالچ ،غرور اور تکبر کا نام و نشان مٹنا چاہیے۔اسی طرح تن کی صفائی کے ساتھ من کی صفائی بھی ضروری ہے لہذا ہمیں باظاہری اور باطنی صفائی کا خاص اہتمام کرنا چاہیئے
اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے آمین
اللہ سارے عالم اسلام کی خیر فرمائے آمین۔
اس تحریر اگر کہیں بھی کوئی غلطی کوتاہی ہو گئی ہو تو بارگاہ خداوندی میں معافی کا طلب گار ہوں
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.