کتاب : بہاولپور میں اجنبی
مصنف : مظہراقبال مظہر
تبصرہ نگار : رخسانہ افضل– کراچی
یہ کتاب بہاولپور کی محبت میں رچی بسی ہے۔ لفظ لفظ بہاولپور کی محبت سے مہک رہا ہے۔ کتاب کا سرورق بہت خوبصورت اور طباعت بہت دیدہ زیب ہے۔ جیسا کہ شمس رحمان نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ” کتاب کا انداز تحریر اس خصوصیت کا حامل ہے کہ اس میں باتوں کو “لمکایا” نہیں گیا بلکہ جلدی جلدی بتا کر اگلے موڑ، اگلی گلی، اگلے بازار، اگلے تاریخی واقعے، اگلے یونیورسٹی کے شعبے، میوزیم، مسجد، لائبریری اور کسی نئے بہاولپوری کی کسی نئی بات کی طرف سفر جاری رہتا ہے”۔
اس کتاب میں غیر ضروری طوالت سے احتراز برتا گیا ہے۔ جگہ جگہ میٹھی سرائیکی زبان کا تڑکا بھی مزہ دیتا ہے۔ “بہاولپور کے اجنبی” نے ہمیں بہاولپور کی خوب سیر کروائی، تانگے کی سیر کروائی، ایک بھولا بسرا گانا بھی یاد کروا دیا
ٹانگہ لہور دا ہووے پاویں چہنگ دا
ٹانگے والا خیر منگ دا
شیریں زبان سرائیکی کی جلترنگ کی تان بھی بہت مدھر محسوس ہوئی۔ مرکزی لائبریری اور میوزیم کی سیر کروانے کے بعد ہمیں جامع مسجد الصادق کی سیر بھی کروائی اس اجنبی نے۔پھر چوک فوارہ کو دیکھتے ہوئے ہم بہاول وکٹوریہ ہسپتال اور قائد اعظم میڈیکل کالج پہنچے، یہ تاریخی عمارات ایک ورثہ ہیں بہاولپور کا۔
بہاولپور نوابوں کا شہر ہے۔ “نواب بہاول” کے نام کی نسبت سے یہ شہر بہاولپور ٹھہرا۔ بہت تسلسل اور دلچسپ پیرائے میں شہر بہاولپور کی سیر کروائی گئی ہے اورپررونق مقامات کا تعارف بھی کروایا گیا ہے۔ سفر نامہ لکھنا اگرچہ ایک مشکل صنف ہے، مگر لکھاری نے بہت خوبصورت پیرائے میں لکھا۔ قاری کو ساتھ ساتھ باندھے رکھا۔ بہاولپور کے گلیوں چوباروں میں گھمایا، ساتھ جامعہ اسلامیہ بہاولپور کی سیر بھی کروا دی، بہاول پور کا صوفیانہ رنگ بھی نمایاں کیا۔
بہاولپور کی سیر کے بعد دوسرا حصہ دو افسانوں پہ مشتمل ہے۔ “دل مندر” اور ‘ایک بوند پانی”۔ “دل مندر” میں کمال منظر نگاری ہے مزارات کی۔۔ افسانے کے مرکزی کرداروں بوبے اور ماں کی مامتا کی تکلیف اس قدر دلگداز طریقے سے بیان کی گئی ہے کہ میں ایک ہی سانس میں آخر تک پڑھتی چلی گئی، مامتا کی بے قراری اور بوبے کا درد محسوس ہو رہا ہے لفظوں میں۔۔ماں اپنی محبت سے مجبور اور بوبا اپنے آپ سے مجبور۔
دوسرا افسانہ “ایک بوند پانی ” بھی ایک حساس اور دلسوز تحریر ہے۔ ایک درد اور تکلیف کی پکار ہے۔ تھر اور پیاس ازل سے ساتھ ساتھ ہیں۔ تھر کے رہنے والوں کو پینے کے پانی کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں، منجو اور گاؤں والوں نے اپنے بچے تک کھو دئیے صاف پانی نہ ملنے پر،۔ منجو کی اذیت لفظوں میں مکمل عیاں ہے مگر افسوس کہ نجانے کب تھر واسیوں کو پینے کا صاف پانی ملے گا، کب ان کو زندگی کی بنیادی سہولتیں یعنی خوراک، پانی اور لباس جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے ملیں گی۔۔نجانے تھر کی پیاس کب بجھے گی، کب اس کی تشنگی ختم ہوگی۔۔ “ایک بوند پانی” ایک جھلک ہے اس درد کی جو تھر کے باسی پل پل سہتے ہیں، ایک نوحہ ہے تھر باسیوں کی غربت کا۔۔مصنف کو داد ہے کہ اس نے” ایک بوند پانی “لکھ کے قلم کا حق ادا کر دیا۔۔کتاب میں ہجرت، سفر اور درد کا مزاج واضح ہے۔۔
مظہراقبال مظہر ایک منجھے ہوۓ لکھاری کے طور پہ سامنے آئے ہیں، کتاب ہاتھ میں لیتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کتاب سے کس قدر محبت کرتے ہیں، سرورق، کتابت اور طباعت ہر چیز بہت دیدہ زیب ہے،۔۔ پریس فار پیس فاؤنڈیشن ایک اعلیٰ اور معیاری پبلشنگ ادارہ ہے۔۔پبلشنگ کے معیار کا تعارف “بہاولپور میں اجنبی ” کتاب بہت اچھے اندازسے کروا رہی ہے۔ پروفیسر ظفر اقبال پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں، ایک حساس اور ہمدرد انسان ہیں، پبلشنگ کے علاوہ سماجی اور معاشرتی خدمات میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں، بہت دعائیں ان کے لئے۔
آپ سب سے بھی درخواست کہ اگر مصنف لکھ کر کتاب کو زندہ رکھنے کی تگ و دو میں لگے ہیں تو آپ بھی کتاب پڑھ کے کتاب دوست ہونے کا ثبوت دیں۔۔ہم پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام آئندہ بھی ایسی اعلیٰ معیار کی کتب کے منتظر رہیں گے۔۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.