رجب چوہدری
مرے بخت کا تو ستارہ نہیں ہے
یہ مانے بنا اب گزارا نہیں ہے
یہی بات تجھ کو گوارا نہیں ہے
تمہارا تھا جو اب تمہارا نہیں ہے
یہ کس نے کہا تم سے جانِ تمنا
مجھے جان سے اب تو پیارا نہیں ہے
یہی اک خطا ہے سرِ بزم میں نے
تجھے نام سے بس پکارا نہیں ہے
میں اوڑھے ہوئے ہوں ترا عشق اب بھی
ابھی پیرہن یہ اتارا نہیں ہے
ہاں ! وعدہ تھا تم سے سنور جاوں گی میں
مگر یار خود کو سنوارا نہیں ہے
نمازِ محبت قضا کر نہ دینا
مرے یار اس کا کفارہ نہیں ہے
کوئی جا کے کہہ دے مرے ناخدا سے
کہ مطلوب اب کے کنارہ نہیں ہے
عجب کھیل ہے یہ مری جان الفت
جو الفت میں ہارا وہ ہارا نہیں ہے
سراسر رجب ہے منافع کا سودا
محبت میں لٹنا خسارا نہیں ہے
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.