تبصرہ نگار: پروفیسر محمد اکبر خان
کرن عباس اردو فکشن نگاری میں نووارد ضرور ہیں لیکن ان کی اعلی نثر نگاری و کہانی کاری لاجواب ہے۔ اپنی پہلی تخلیق “گونگے خیالات کا ماتم” کے ساتھ ہی وہ افسانوی ادب کے افق پر جگمگانے لگیں۔ وہ اپنے ادبی فن پاروں کی بدولت جلد ادبی شناخت بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔
ان کی تازہ تخلیق “دھندلے عکس” اردو ناول نگاری میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔ ناول ایسے نوجوانوں کی سرگزشت ہے جو سکون قلب کے متلاشی ہیں حالانکہ کہ وہ اپنے فن پر کامل دسترس رکھتے ہیں ۔دنیا کی بہت سی نعمتیں اللہ رب العزت نے انھیں عطا کر رکھی ہیں مگر وہ سدھارت کی مانند اس فانی دنیا میں سب کچھ ہوتے بھی قلبی طمانیت کی کھوج میں نکل کھڑا ہوتے ہیں اس ناول کے کردار کبھی گلگامش کی طرح ناتمام خواہشات کی تلاش میں مسلسل مصروف دکھائی دیتے ہیں تاکہ ان کی روح کو ابدی سرشاری مل سکے
اور جس طرح بدھا کو نروان حاصل ہوگیا تھا اسی طرح اس ناول میں نوجوانوں کو وہ ابدی آسودگی حاصل کرتے دکھایا گیا ہے. جو ان کو کرب اور اضطرابی کیفیت سے نکال لیتی ہے۔
کرن عباس کا یہ ناول اسلوبیاتی اعتبار سے اثر انگیز ہے زبان سادہ اور سلیس ہے جو ان کی فنی پختگی کی مضبوط دلیل ہے۔
ناول کا پلاٹ جاندار ہے جس سہ طرفی کہانی پر مبنی ہے ناول تکنیکی اعتبار سے مصنفہ کی مہارت اور انفرادیت کی شہادت دیتا ہے. ان کے ناول میں خود کلامی، خط، داستانی اسلوب اور حکایت کا پرتو بھی دکھائی دیتا ہے۔.
ناول نویس اگر کردار نگاری میں ماہر ہے تو نہ صرف ناول کی وقعت اور اثر پذیری بڑھ جاتی ہے بلکہ قارئین کی دلچسپی بھی دو چند ہوجاتی ہے۔ اس ناول کے کرداروں کو نہایت خوبی سے تراشا گیا ہے. ناول کا کردار نایاب ایک شاعرہ ہےجوایک تخلیق کار ہونے کے ساتھ ایک اور تخلیق کار مصور “رسیم” کی محبت میں گرفتار ہوجاتی ہے ۔رسیم اپنے غموں میں مبتلا ہے اور وہ نایاب کی محبت ٹھکرا دیتا ہے نایاب کا خاتمہ انتہائی افسوس ناک انداز میں ہوتا ہے اور وہ جان لیوا سرطان میں مبتلا ہوکر دنیا چھوڑ جاتی ہے۔ رسیم ایک ایسا کردار ہے جو نرگسیت سے دور صرف فن کو ترجیح دیتا معلوم ہوتا ہے جس کے ساتھ تین اور کرداروں کی کہانی جڑی ہوئی ہے مصنفہ رسیم کے کردار کو خط کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے اس کے خیالات کی ترجمانی پیش کرتی ہیں۔.
کرن عباس کا یہ ناول ندرت خیال ، اعلی زبان و بیان، کہانی پرگرفت کے باعث ایک منفرد اور جداگانہ تخلیقی شاہکار ہے۔
ان کا ناول استعاراتی اور تمثیلی انداز سموئے ہوئے ہے جو مربوط پلاٹ اور عمدہ اسلوب کی بدولت تشنگان ادب کو متوجہ کرنے کی تمام تر خصوصیات کا گلدستہ ہے.
پریس فار پیس فاونڈیشن نے اعلی طباعتی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے اسے شائع کیا ہے معیاری ادب کی خدمت میں یہ ادارے کی جانب سے ایک اہم سنگ میل ہے۔.
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.