پریس فار پیس پبلی کیشنز نے میلے کے دوسرے دن جناب احمد حاطب صدیقی کے ساتھ ایک نشست رکھی تھی۔ ارادہ یہی تھا کہ ان کے ساتھ لسانیات کے حوالے سے گفتگو ہوجائے اور کچھ سوالات جوابات کا سلسلہ ہوجائے۔ اس نشست کے حوالے سے کافی فکر تھی کہ کسی طرح بیٹھنے کا انتظام ہوجائے۔ اب منظر پر نمودار ہوتے ہیں ڈاکٹر زین العابدین۔ کیا مزے کی اور مہمان نواز شخصیت ہیں۔ نمل یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں کام کرتے ہیں اور ہمارے ادارے کی ساتھی محترمہ تابندہ شاہد کے گھر والوں کے پرانے جاننے والے تھے۔ وہ اپنے کچھ شاگردوں اور ساتھی اساتذہ کے ساتھ ہمارے سٹال پر آئے تھے۔ ان کے ساتھ بہت اچھا تعارف رہا اور وہ زبردستی مُصِر رہے کہ ہماری مہمان نوازی ہو۔ ادارے کے گرافک ڈیزائنر استاد محترم ابرار گردیزی بھی اس وقت سٹال پر موجود تھے۔ ڈاکٹر زین العابدین صاحب کا خیال تھا کہ ہم سب کو کچھ کھلایا پلایا جائے۔ میم تابندہ اور ابرار گردیزی صاحب نے بہت مشکلوں سے انھیں منع کیا۔وجہ یہ تھی کہ ابرار گردیزی صاحب کو ایک ایمرجنسی کال آگئی تھی اور میم تابندہ ہیڈ آف سٹال ہونے کے ناطے جناب احمد حاطب کی نشست کے لیے پریشان تھیں۔ ڈاکٹر زین العابدین نے پوچھا کہ کچھ اور چاہیے ہو تو بتائیں اور ساتھ ہی میم تابندہ نے کہا
”کرسیاں چاہییں۔“
ڈاکٹر زین العابدین اور ان کا سٹاف اتنا پھرتیلا نکلا کہ دو تین فون گھمانے کے بعد ہی قریب موجود شعبۂ نفسیات سے کرسیوں کا انتظام کردیا (شعبۂ عربی بہت دور تھا اور وہاں سے کرسیاں اٹھا کر لانا کافی مشکل امر تھا)۔ کرسیوں کا انتظام ہوتے ہی سکون کا سانس لیا۔اب مسئلہ یہ تھا کہ ان کرسیوں کا خیال بھی رکھا جائے کیونکہ وہ امانت تھیں۔ مابدولت نے یہ بیڑہ اٹھا لیا اور کرسیوں کی نگرانی شروع کردی(کرسیاں نہ ہوئیں، کسی بادشاہ کا خزانہ ہوگیا
۔ خیر اس وقت خزانے سے کم بھی نہیں تھیں)۔ اتنے میں سید مکرم علی صاحب تشریف لے آئے اور آتے ہی جو اردو زبان کے موتی بکھیرنا شروع کیے، ہم تو دنگ رہ گئے۔
جب احمد حاطب صدیقی صاحب آئے تو کمال ہی ہوگیا۔ ہوا یہ کہ وہ بالکل اچانک ہمارے سٹال کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اورسید مکرم شاہ صاحب سے سلام دعا کرنے لگ گئے۔ ان کے ساتھ ایک اور ساتھی تھے جنھیں اس وقت ہم پہچان نہیں پائے تھے۔ مابدولت نے میم تابندہ سے کہا کہ لگتا ہے یہی احمد حاطب صدیقی صاحب ہیں(پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تو پہچانتے نہ تھے، بینر پر تصویر موجود تھی لیکن ہم تو تصویر دیکھ کر کبھی بھی بندہ پہچان نہیں پاتے)۔ میم تابندہ نے کہا کہ نہیں تو، سر حاطب تو ابھی آئیں گے۔ اب ساتھ ہی سر نے اپنا تعارف بھی کروادیا۔ میں اور میم تابندہ بوکھلا گئے کہ یہ تو بڑے سادہ بندے ہیں، ایسے ہی اندر آگئے۔ انھیں تو پروٹوکول دینا تھا۔ اتنے میں زبیرالدین عارفی آئے اور ہمیں بتانے لگے کہ میلے کے سامنے والے کونے میں شعبۂ اردو نے ادیبوں کے ساتھ ملاقات کرنے کے لیے ایک جگہ بنا رکھی ہے۔ وہاں میزیں اور کرسیاں موجود ہیں اور بہت اچھا انتظام ہے۔ان کے دوست ثاقب ریاض شاد نے اس بارے میں بتایا اور بھرپور مدد کی(
لو بتاؤ بھلا، پہلے پتہ ہوتا تو کرسیوں کے لیے اتنا خوار نہ ہوتے، بےچارے ڈاکٹر زین العابدین اور ان کے ساتھی….. کیونکہ وہ اور ان کے ساتھی خود کرسیاں اٹھا کر لائے تھے)۔
خیر وہاں گئے،نشست جمی، باتیں ہوئیں، سوالات جوابات کا سلسلہ شروع ہوا۔ آج کی نشست کے روح رواں جناب احمد صدیقی کے ساتھ جو شخصیت تشریف لائی تھی اور جن کے بارے میں ہمیں بعد میں پتہ چلا وہ سفرنامہ نگار عبیداللہ کہیر تھے۔ جیسے ہی محفل سنجیدہ ہوتی تھی وہ درمیان میں ایک چٹکلہ چھوڑ دیتے تھے اور محفل زعفرانِ زار ہوجاتی تھی۔ احمد حاطب اور سید مکرم بھی ایک دم سنجیدگی کا چولا اتار کر ہنسی کے زردانے بکھیرنا شروع کردیتے تھے۔ محفل کے درمیان میں بزرگ مصنف جناب انور عباسی بھی تشریف لے آئے۔ اپنی علالت کے باوجود وہ ہماری محفل میں آئے ہمیں بہت اچھا لگا اور ان کے لیے بہت دعائیں دل سے نکلیں۔
ادب اطفال کے متعلق گفتگو کرتے وقت مکرم صاحب نے بتایا کہ ان کی بیٹی کا ایک یوٹیوب چینل ہے جہاں وہ مختلف آوازیں نکال کر بچوں کو کہانیاں سناتی ہیں۔ یہ بات سن کر ہم چونک گئے، ہم نے نام پوچھا اور نام سن کر تو ہم اچھل ہی پڑے۔ “ کہانی زبانی “ کے نام سے اس چینل کی کہانیاں تو مابدولت کے بچے باقاعدگی سے سنتے ہیں۔ پھر تو ہم ایسے بےچین ہوئے کہ مکرم شاہ صاحب سے سوالات پوچھ پوچھ کر انھیں تنگ کردیا۔ حاطب صاحب ، مکرم صاحب اور عبیداللہ کہیر صاحب نے ہمیں جھیلا، بڑا مزہ آیا۔
دوسرے دن کی نشست تھی، تھکاوٹ تو ایک قدرتی بات ہے مگر زبان ہلا ہلا کر ہمارا گلا بے حال ہوگیا۔ اسی لیے تو سٹال پر آنے والے دیگر مہمانوں جناب جمیل احمد، شاعرہ رفعت انجم اور نوجوان افسانہ نگار ارشد ابرار ارش سے گفتگو نہ کرسکے(اب یہ سب ہمارے لیے اشاروں کی زبان تو سیکھنے سے رہے )۔
عنوان دیکھ کر لگ رہا ہوگا کہ ہم شاید اس روداد میں جناب حاطب سے کی گئی گفتگو لکھنے لگے ہیں(لکھ ہی نہ لیں۔ بھئی اس کے لیے صبر کیجیے۔ مختلف مضامین میں جناب احمد حاطب کی باتیں ملیں گی ان شاء اللہ) اس محفل میں احمد حاطب صدیقی، سید مکرم علی، انور عباسی، عبیداللہ کہیر، ڈاکٹر محمود اسلم، ذوالفقار علی بخاری، شمیم عارف، ثاقب ریاض شاد، زبیرالدین عارفی، حسن ابن ثاقی، مابدولت اور دوسرے طلباء شامل تھے(اس کی تو ہمیں بالکل امید نہیں تھی)۔
محفل برخاست ہوئی، آہستہ آہستہ سب پرندے اڑنے لگے۔ سر احمد حاطب، سر مکرم علی اور سر عبیداللہ کو کھانا کھانے کا کہا۔ احمد حاطب کہنے لگے،”مکرم صاحب کو بھوک نہیں ہے، میں کھا کر آیا ہوں اور رہے عبیداللہ صاحب، تو یہ اکیلے کھاتے ہوئے اچھے نہیں لگیں گے اس لیے رہنے دیں۔“ سر احمد حاطب کا ارادہ بن رہا تھا کہ ہم سے رخصت لیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ ایک محفل جمائیں۔ اب ہم تو ہم تھے، انکار کے باوجود کھلا کر ہی دم لیا۔ پھر دوسرے دن کے اختتام پر خراب گلا، تھکے پاؤں اور اپنی پھپھو زاد کے ساتھ گھر کی طرف رواں دواں ہوگئے تاکہ تیسرے دن کے لیے توانائی جمع کرسکیں۔ یہ ایک ایسا دن رہا جس کے اثر سے میرا نکلنا شاید ہی کبھی ممکن ہوسکے۔
===========
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.