رپورٹ : توحید مظفر
تصاویر: حماد مغل
بزم ادب؛ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے طلبہ مظفرآباد کی جانب سے کرن عباس کرن کے ناول ”دھندلے عکس“ کی تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا گیا۔
تقریب کی صدارت پرنسپل پوسٹ گریجویٹ کالج پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم نے کی۔ چیئر مین شعبہ اُردُو جامعہ کشمیر ڈاکٹر میر یوسف صاحب بطور مہمان خصوصی تشریف لائے۔ ہردلعزیز مہمان راجا رحمت علی خان صاحب نے بھی اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا ۔ کرن عباس کرن جن کے ناول کی پذیرائی کے لیے تقریب منعقد کی گئی تھی، بھی مہمان خاص کے طور پر تقریب میں رونق افروز ہوئیں۔
معروف سیاسی و سماجی شخصیت والد مصنفہ کرن عباس کرن جناب چودھری غلام عباس،چیئر مین شعبہ سیاسیات پروفیسر شگفتہ بُخاری، چیئر مین شعبہ اُردُو پروفیسر سعید احمد شاد، پروفیسر صائمہ گیلانی، پروفیسر سلمہ کاظمی، پروفیسر محمد جاوید، لیکچرر انگریزی رابعہ حسن ، وزٹنگ لیکچرر انگریزی راجا محمد شعیب، مصنفہ کے بہن بھائیوں، عزیز و اقارب اور پوسٹ گریجویٹ کالج کے شعبہ انگریزی اور اُردُو کے طلبہ نے تقریب میں بھرپور شرکت کی ۔
نظامت کے فرائض لیکچرر انگریزی رابعہ حسن نے سرانجام دیے۔جو ہمارے ساتھ ساتھ مصنفہ کی بھی استانی ہیں
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام مجید سے کیا گیا۔جس کے لیے شعبہ انگریزی کے میقات ہفتم کے طالب علم عمر عزیز کو بلایا گیا۔
اللہ تعالیٰ کے کلام سے آغاز کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پیش کی گئی اس فرض کو شعبہ انگریزی کے میقات سوم کے طالب علم محمد احتشام نے پورا کیا نہایت خوبصورت آواز میں نعت خوانی کی۔ ع
قدسی کھڑے ہیں حیران ہو کے
انھوں نے کہ نعت کے بعد میڈم رابعہ نے مصنفہ کا مختصر تعارف کروایا ۔
کہا کہ چند برس قبل ایک دبلی پتلی سی لڑکی میرے پاس کاغذوں کا پلندہ لیے حاضر ہوئی اور اپنے مسودے کی اصطلاح چاہی۔مزید کہا کہ کرن میری طرح ہی ماہر انگریزی ہے پر اس کا شغف اردو ادب کے ساتھ ہے۔ **دھندلے عکس** پر بات کرتے ہوئے کہا کہ
ان کا یہ ناول *روز نامہ جنگ* میں قسط وار چھپتا رہا اور خوب پذیرائی حاصل کی اور اب کتابی صورت میں بھی یہی توقع ہے۔
کرن عباس کرن کو بلایا گیا کہ وہ اپنی تخلیق پر بات کریں۔ انہوں نے حسب روش مہمانان کو خوش آمدید کہا اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ ان سب نے اپنا قیمتی وقت نکال کو اس تقریب میں شرکت کی۔
انھوں نے میم رابعہ اور ڈاکٹر عبد الکریم صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ ان دو شخصیات نے ہمیشہ راہنمائی کی۔
انھوں نے پریس فار پیس فاؤنڈیشن ، برطانیہ کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ واحد ادارہ ہے جو نوجوان ادیبوں کی خوب حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔پھر اپنے ناول کے بارے میں مختصراً حاضرین کو آگاہ کیا ۔اس ناول میں ان کی روحانی تربیت کی گئی ہے جو عصر حاضر میں اضطراب کی کیفیت سے دو چار ہیں اور یہ کہا کہ میرے ناول کو نوجوانوں نے کافی پسند کیا ہے ۔ مصنفہ کے بعد طلبہ کے تبصروں کا وقت ہوا ۔
پہلے بی۔ ایس اردو کے میقات سوم سے حمزہ سعید کو بلایا گیا۔ موصوف نے پہلے ہمیں تبصرے کے بارے میں رفیع الدین ہاشمی صاحب کی کتاب “اصناف ادب”سے ایک اقتباس سنایا ۔اور پھر ناول “دھندلے عکس” پر اپنے مطالعے کی روشنی میں حاضرین کو آگاہ کیا ۔ حالاں کہ روانی کی کمی تھی، البتہ ہم سے اچھا بول سکتے ہیں۔
حمزہ کے بعد شعبہ انگریزی کے میقات ہفتم کے طالب علم محمد اسامہ شائق آئے ۔انھوں نے ناول کے مختلف اقتباسات کی روشنی میں ناول کے موضوعات پر بات کی اور مصنفہ کے فن پر اجمالاً گفتگو کی ۔
پھر محمد احسان کی باری آئی جن کا تعلق بی ایس اردو کے میقات سوم سے ہے ۔جناب محمد احسان نے دور حاضر پر بات کرتے ہوئے ناول کو اس سماج سے جوڑنے کی کوشش کی ۔اور ناول کی فنی خصوصیات پر گفتگو کی ۔ ۔
طلبہ کے تبصروں کا سلسلہ محمد احسان پر منقطع ہو گیا ۔اب کی بار چودھری عباس صاحب کو بلایا گیا جو ایک جانے مانے سماجی کارکن ہیں ۔ انھوں نے خواتین کی تعلیم و تربیت پر بات کی اور بہت سے قصے سنائے ۔ آخر میں انہوں نے ان تمام اساتذہ کا شکریہ ادا کیا.
چودھری عباس صاحب کے بعد پروفیسر سعید احمد شاد صاحب کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی ۔اپ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مظفرآباد میں شعبہ اردو کے رابطہ کار ہیں ۔
انہوں نے پرنسپل ادارہ کا شکریہ ادا کیا کہ ہمیں انہیں کی بدولت اردو کے متعلق تقاریب کا اہتمام کرنا میسر ہوا ہے ۔میر یوسف میر صاحب کے بارے میں انہوں نے کہا کہ آپ ان کے اچھے دوست بھی تھے البتہ اب میرے استاد ہیں۔انھوں نے چودھری عباس صاحب سے اپنی دیرینہ دوستی کے بارے میں بھی حاضرین کو آگاہ کیا کہ ان ہی کی بدولت میں اس پیشے سے منسلک ہوا تھا۔وقت کی کمی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے استاد محترم نے اجازت چاہی۔
اب راجا رحمت خان صاحب کو بلایا گیا ،جن کا تعلق جامعہ کشمیر کے شعبہ اردو سے ہے۔رحمت صاحب کے بارے میں یہ کہنا اچھا نہ ہو گا کہ آپ مہمان تھے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نے جب بھی کوئی تقریب منعقد کرائی، ہم نے اس میں آپ کو ہم نے پایا۔
حسب معمول آپ نے طویل گفتگو کی اور ہمیں نئی معلومات فراہم کی ۔انھوں نے ناول پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ مصنفہ نے ناول میں فلسفیانہ مضامین کو شامل کیا ہے ۔ انھوں نے مصنفہ کے انداز بیان کی تعریف کی۔اور رائے دی کی یہ ناول اردو ادب کی کلاسیک میں شامل ہو سکتا ہے۔
ہماری معلومات میں اصافہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صابر آفاقی جو آزاد کشمیر کے سب سے پہلے شخص تھے جنھوں نے پی۔ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ان کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابوں کی تعداد پچپن (۵۵) ہے ۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر میر یوسف صاحب کو بلایا گیا۔
یوسف میر صاحب جامعہ کشمیر کے شعبہ اردو کے سربراہ ہیں ۔ انھوں نے دھیمے لہجے میں گفتگو کی
پہلے تو ڈاکٹر عبد الکریم صاحب کی توصیف کی (کیوں کہ عبد الکریم کے اوصاف ہی ہم سب کو مجبور کرتے ہیں کہ آپ کی تعریف کی جائے )
یوسف میر صاحب نے بھی ہمیں بہت کچھ ایسا بتا دیا کہ ہم جس کا علم نہ رکھتے تھے ۔
مثلاً آزاد کشمیر میں اردو شاعری اور نثر کی پہلی کتب کے بارے میں جو مندرجہ ذیل ہیں
شاعری: گلزار فکر ( اٹھارویں صدی عیسوی)
نثر: سفرنامہ بخارا( انیسویں صدی عیسوی)
ناول کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انارکلی از محمد دین فوق کشمیر میں اردو کا پہلا ناول ہے ۔
دھندلے عکس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ ناول بھی فنی لحاظ سے اچھا ناول ہے ۔انھو ں نے اس ناول کے تین حصوں کے بارے میں کہا کہ
پہلے حصے میں مصنفہ نے اس معاشرے کا پوسٹ مارٹم پیش کیا ہے کہ اس حصے میں انسانی زندگی کی کشمکش کو پیش کیا گیا ہے۔
دوسرے حصے میں مصنفہ نے وجوہات کا ذکر کیا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ انسان اپنے مقاصد سے منحرف ہو گیا ہے وغیرہا۔
تیسرے حصے میں مصنفہ نے اپنی طرف سے مندرجہ بالا مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔کہ انسان کیسے نروان ( سکون ) حاصل کر سکتا ہے۔
انھوں نے مصنفہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مصنفہ بہترین اسلوب رکھتی ہیں۔ان کے الفاظ کا چناؤ اچھا ہے۔ ان کے ناول میں مقصدیت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔
یوسف میر صاحب کے بعد پروفیسر شگفتہ بخاری نے اپنا اظہارِ خیال رکھنے کی اجازت چاہی۔انھوں نے کہا کہ کرن عباس کرن اور وہ آپس میں ہمسائے ہیں پر جیسا کہ ہمارے معاشرے کا رواج ہے ہم نام تو سنتے ہیں پر کام سے ناواقف ہوتے ہیں۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ انھیں آج ہی پتا چلا ہے کہ کرن لکھتی بھی ہیں ۔ انھوں نے ہمارے سماج کا ایک اور المیہ بھی بیان کیا کہ ہم اپنے گھرانوں میں بھی اپنے بچوں اور بچیوں سے ایک جیسا سلوک روا نہیں رکھتے۔
سب سے آخر میں صاحب صدارت ڈاکٹر عبد الکریم صاحب تشریف لائے اور ناول پر اپنے ناقدانہ انداز میں روشنی ڈالی۔ تحریر کی خوبیوں اور خامیوں کو مختلف اقتباسات اور جملوں کے ساتھ بیان کیا۔
انہوں نے دھندلے عکس کا بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ کے ساتھ تقابلی جائزہ پیش کیا۔ مصنفہ کو یہ کہا کہ ابھی آپ نے یہ سفر شروع کیا ہے وقت کے ساتھ ساتھ اور عمدگی آئے گی۔
تقریب کے اختتام پر تمام مہمانان گرامی کو کتاب کا تحفہ پیش کیا گیا ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.