تبصرہ نگار : رخشندہ بیگ
فرح ناز فرح نے نثر کے میدان میں تو خود کو منوا ہی لیا تھا , اب شاعری کے دشت کی سیاحی بھی کرلی ۔
فرح کی خوبصورت شاعری سے ہم اکثر مستفید ہوتے رہے اور اب ” عشقم ” کی صورت ان کا مجموعہ کلام ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔
فرح ناز مصنفہ اور شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باغ و بہار شخصیت کی مالک پرخلوص انسان بھی ہیں ۔وہ انسان جو حساس ہے اور اپنے احساسات لفظوں کی مالا میں پرونا بھی جانتا ہے ۔
مجھے فخر ہے کہ فرح ناز میری دوست بھی ہیں اور ان سے استاد والا رشتہ بھی ہے ۔فرح ناز کا تعلق کراچی سے ہے اور دیکھا گیا ہے کہ اس شہر کے باسی حقیقت کی تلخیوں کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں ،محسوس کرتے ہیں ۔یہی درد اور احساس ہمیں فرح ناز کی شاعری میں رچا بسا نظر آتا ہے ۔
مری روح میں نہ جانے کتنے شگاف ہوں گے
کوئی جو اتر کے دیکھے نئے انکشاف ہوں گے
خود کو مٹا کر خاک بھی کرلیں اگر جو ہ
جن کے سیاہ دل ہوں ،کیسے وہ صاف ہوں گے
ایک اور جگہ وہ کہتی ہیں ۔
میری آنکھوں میں خواب بستے ہیں
اور سارے عذاب بستے ہیں
ہر قدم واں ہے پہرا کانٹوں کا
اس شہر میں گلاب بستے ہیں
دریا اترا تو یہ سمجھ آیا
کچھ شہر زیر آب بستے ہیں
شاعر کا قلم ہو اور عشق و محبت کا ذکر نہ چھڑے ،ایسا تو ہو نہیں سکتا ۔فرح ناز فرح نے جہاں تصوف اور معاشرے کے درد کو اپنے قلم سے زباں دی وہاں ان کے ہاں بڑے خوبصورت انداز میں محبوب سے گلے شکوے بھی نظر آتے ہیں ۔
تیرے گالوں پہ میں مہتاب دہکتا دیکھوں
اور آنکھوں میں ستاروں کو چمکتا دیکھوں
ہجر میں تیرے بہا تھا جو مری آنکھوں سے
تیری آنکھوں میں بھی دریا وہ مچلتا دیکھوں
آؤ شب فرق ہے اب دور چلے گا
اب مے کدے میں سسکیوں کا شور چلے گا
رقص جنوں ہے کون اسے روک سکا ہے
یہ رقص جنوں جان میری اور چلے گا
اس قدر خوبصورت اور دل میں اترتا کلام ہے کہ ایک ایک لفظ موتی کی طرح اپنی قدر وقیمت رکھتا ہے ۔
غزلوں کی طرح فرح ناز فرح کی لکھی نظمیں بھی پردرد اور متاثر کن ہیں ان کی حساس شخصیت کی آئینہ دار ان کی نظمیں
عشقم
بیٹیاں
محبت بیچ ڈالو تم
اولڈ ہاؤس کا بوڑھا
شاعر مجبور
بھرم
سب ہی پڑھنے کے لائق ہیں ۔خاص طور پر آخری نظم ” شب ہجراں “
فرح ناز فرح موجودہ دور کی شاعرہ ہیں ہر قلمکار اپنے دور کا آئینہ ہوتا ہے اور فرح کی شاعری میں بھی ہمیں اپنے موجودہ دور کا عکس صاف نظر آتا ہے ۔
امید ہے کہ ان کے خوبصورت احساسات میں گندھا شاعرانہ کلام مزید کتابوں کی صورت شائع ہوتا رہے گا ۔
خدا کرے کے زور قلم مزید بڑھے
شب ہجراں گزارنے آئے
آج آنگن میں چاند ،بادل اور ہوائیں
تھے بادل بھی بوجھل
ہوا بھی تھمی سی
کہ چاند بھی تھا کچھ دھندلا دھندلا
تھے خاموش سب کہ
کہنے کو سننے کو کچھ بھی نہیں تھا
بادل نے پھر دو آنسو بہائے
مگر ہم تو جاناں یہ بھی کر نہ پائے
بہت ہی طویل اور خاموش گزری
اب کے شب ہجراں
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.