یقیناً آپ سب کو کوئٹہ میں منعقد ہونے والے میلے کی روداد کا انتظار ہو گا تو ذرا تھوڑا سا اور حوصلہ۔ ۔۔ تین دنوں کی کمر توڑ تھکن اتر لینے دیجیے ۔ تھکن تو ابھی بھی باقی ہے ۔ مگرمزید انتظار کی زحمت نہیں دوں گی ، تو پڑھیے!
پریس فار پیس کا مشن ہی بھلائی اور معاشرے میں گرتے ہوئے لوگوں کو سہارا دینا اور انہیں ایک روشن مستقبل دلانا ہے۔ میں دین و ادب کو قائم رکھنے والی شخصیات کی بہت قدر کرتی ہوں، میری نظر میں وہ نایاب گوہر اور روشن ستارے ہیں اور پریس فار پیس کے تمام کارکن بھی روشن ستاروں کی مانند ہیں جو پریس فار پیس کے آسمان پہ جگمگا رہے ہیں، جنہوں نے کتابوں کی دنیا بنانے اور بسانے کی ٹھانی ہوئی ہے۔
تو جناب!آخر وہ دن آ ہی گیا۔ میں عالیہ بٹ پریس فار پیس کے پلیٹ فارم پر بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز کوئٹہ میں منعقد ہونے والے کتب میلے میں ادارہ پریس فار پیس کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ سے مخاطب ہوں۔
آپ سب کو اس میلے میں شرکت کی دعوت عام دی گئی تھی۔ یہ میلہ پاکستان لٹریچر اینڈ آرٹ کونسل نے کروایا اور جس جگہ میلہ منقعد ہوا وہ کوئٹہ کا ایک بہت پر فضا مقام ہے۔۔اس میلے میں بیس ہزار سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پوری دنیا ہی یہاں پہنچی ہوئی ہے۔ سیکیورٹی کے انتظامات اتنے بہترین کہ عام لوگوں کو تقریباً ایک میل پہلے گاڑیوں سے اتار کے پیدل ہی منزل کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ جبکہ خاص لوگوں کو گاڑیوں سمیت اندر جانے دیا جارہا تھا۔
گاڑیوں اور لوگوں کے بے انتہا رش کی وجہ سے ہمیں بہت دقت اٹھانی پڑی۔ کیونکہ یہاں لوگ پاگلوں کی طرح آ جا رہے تھے ۔ اس میلے میں بہت سے شاعر، ادیب اور پبلشرز سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جن میں کیو ڈی ایم تحریک کے بانی عبدالمتین اخونزادہ صاحب شامل تھے ۔ ان کا مقصد حیات کوئٹہ شہر کی ترقی و فلاح ہے،وہ ایک دینی و ادبی شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ ان کے ہمراہ پروفیسر ڈاکٹر لعل خان کاکڑ چیئرمین شہید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ بھی تھے۔ اخونزادہ صاحب نے جب انہیں یہ بتایا کہ میں نے ان کے دوست نسیم صبا کی گنجل کتاب گردان زندگی کی پروف ریڈنگ کی ہے۔ تو انہوں نے خوش ہو کے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا۔
براہوی زبان کے فروغ کے لیے کوشاں ایک بہت اعلیٰ شخصیت سے بھی ملاقات ہوئی جن کا براہوی کتب کی اشاعت کا ادارہ ہے۔ انہوں نے براہوی اردو گرامر کی کتاب اور دوسری کتابیں تحفے میں دیں۔
پریس فار پیس کے اسٹال پہ پی ایل ایف کے ناظم سید سلطان صاحب بھی تشریف لائے۔ ہم نے جھٹ سے ان کی ایک یادگار فوٹو لے ڈالی۔ انہوں نے پریس فار پیس کے اسٹال کا اہتمام اس طرح کرایا کہ ہر گزرنے والا ہمارے اسٹال پہ سب سے پہلے آیا۔ہم پریس فار پیس کی جانب سے اسٹال پہ آنے والے کتب بینوں اور شائقین کو فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے فلسطینی اسکارف بھی تحفے میں دے رہے تھے۔
فارسی زبان کے پروفیسر یاسر جتک فلسطینی اسکارف کا تحفہ لے کے بہت خوش ہوئے اور کہا کہ پورے میلے میں یہ ماحول ہمیں کہیں نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ پریس فار پیس نے کتابوں کی نمائش کے علاوہ فلسطین سے یکجہتی کا جو نمونہ پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ باقی اسٹالوں کا تو نہیں پتا مگر الحمد للہ! ہمارا اسٹال لوگو ں کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ کتابوں اور پھولوں کے امتزاج نے سجاوٹ میں اک جدت پیدا کر دی تھی۔
اسٹال پر آنے والے تمام لوگوں نے بہت تعریف کی اور ہم نے انہیں یہ کہا کہ آپ بھی عمل کی راہ پہ چلتے ہوئے کتابوں سے مضبوط رشتہ استوار کیجیے کہ کتابوں سے ہی ہم میں شعور و آگاہی پیدا ہوتی ہے۔ آج تک ڈاکٹر، انجنئیر، وکیل، استاد اور تمام شعبوں سے رکھنے والوں نے کتابوں کی بدولت ہی اپنا ایک مقام حاصل کیا ہے۔پریس فار پیس کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ نئے لکھنے والوں کی صلاحیتوں کو ابھارنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کسی نہ کسی صلاحیت سے نوازا ہوتا ہے اور لکھنا بھی ایک ہنر اور اللہ تعالیٰ کی خداد داد صلاحیتوں میں سے ایک ہے۔
باہر کے جتنے بھی انتظامات تھے وہ عمران صاحب نے سنبھالے،ان کے علاقے سے کوسوں دور ہزارہ ٹاؤن کے ایک چھاپا خانے سے پریس فار پیس کے پینا سونک پوسٹر،اسٹینڈیاں اور دوسری چیزیں لائے اور دوسرے کونے پہ واقع بیوٹم یونیورسٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر آصف بٹ کے حوالے کیں۔ اس محاذ میں آصف بٹ بھی بہت کام آئے، پریس فار پیس کے تمام کارکنان کا داخلہ انہوں نے ہی کروایا،وہ خندہ پیشانی سے ایک ایک کو لائے۔کچھ کتابیں میرے اسکول کے ایڈریس پہ آنی تھیں اور شام کو میں بھی انتظامات دیکھنے بیوٹم یونیورسٹی گئی ہوئی تھی،ڈاکیے نے میرے نمبر پہ گھنٹی بجا کے بتایا کہ میرے نام پارسل آیا ہے ۔ میں سمجھی کہ سیٹلائٹ ٹاؤن ڈاکخانے پارسل آیا ہے، میں نے ڈاکیے کو کہا میں کل یونیورسٹی جاتے ہوئے لیتی جاؤں گی، میلے کے پہلے دن دل ہی دل میں بار بار یاد کر رہی تھی کہ عالیہ پارسل لے کے جانا ہے، بھولنا نہیں ہے۔
خیر پارسل لینے جب پہنچی تو وہاں سب ہی پارسل سے انجان ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے، میں نے انہیں رسید دکھائی تو وہ پارسل لیپرڈ کورئیر سروس کا نکلا جس کا مین دفتر اسپنی روڈ پر ہے۔ خیر ہم بھاگے بھاگے کورئیر سروس کی جانب دوڑے، وہاں سے جیسے تیسے پارسل وصول کیا اور میلے کی طرف دوڑ لگا دی ۔ مگر ہائے شومئی قسمت کہ ہمارے محافظین نے ایک میل پہلے ہی ہمیں روک دیا اور کہا کہ پیدل مارچ کریں، میں رکشے سے اتری اور سیدھا افسران کے پاس جا پہنچی اور انہیں میٹھے لولی پاپ اور گھی والے لڈو بھرے الفاظ سے کہا کہ بھائی آپ ہمارے لیے ہی یہاں آئے ہیں، مہربانی سے ہمیں جانے دیں ۔ہمارا اسٹال ہمارا انتظار کر رہا ہے مگر ان پہ کسی لولی پاپ اور لڈو کا اثر نہ ہوا، کانوں پہ جوئیں رینگ رہی تھیں۔ مگر ان پہ اثر ندارد … میں نے انہیں مزید کہا کہ چلیں اپنی سرکاری لینڈ کروزر پر ہی چھوڑ آئیں، دیگچے کو چیک کر لیں، اس میں کوئی بم نہیں، مزے دار بریانی ہے کہیں تو چکھائے دیتی ہوں ، بریانی کا نام سن کے ایک آفیسر نے للچاتے ہوئے کہا کہ بی بی آپ کو اجازت دی جاتی ہے اور میں خوشی سے ایسے جھومی جیسے سچ میں میلہ فتح کر لیا ہو۔ آگے مین گیٹ کے پاس ایک اور بندش تھی، اسے آصف بٹ نے توڑا، یوں اپنے اسٹال تک رسائی حاصل کی ۔
بس آخر میں یہ کہوں گی کہ میری بہن فرحت عرف فری نے ہمارے لیے بہت مذیدار بریانی، رائتہ اور سلاد بھیجا جسے ہضم کرنے کے بعد بھی اب تک منہ میں ذائقہ ہے۔دوسرے دن ہمارے پاس سامان نہیں تھا اس لیے پیدل مارچ کرتے ہوئے مین گیٹ تک پہنچےاورمحافظین کو پریس فار پیس کے کارڈ فخریہ انداز میں دکھاتے ہوئے اندر داخل ہوئے، پہلے دن کی طرح دوسرے دن بھی لوگوں کا ہجوم اور بھیڑ تھی۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے کچھ مفت بٹ رہا ہو۔ چھوٹو دانیال خان جسے میرا بیٹا ہونے کا شرف حاصل ہے سر پہ پانی کی بوتل مشکیزے کی طرح اٹھا کے لایا ۔ کومل کے بھائی عبداللہ نے بہت بہادری اور دلیری سے گلاب کے پھول توڑ کے دیے، وہ بچہ پھول نہ لاتا تو اسٹال میں جدت بھی نظر نہ آتی۔ میلے کے دوسرے دن کومل یاسین نہ آ سکی اور ہم نے اس کی کمی کو بہت محسوس کیا ،گو میلے کی کامیابی کے پیچھے پریس فار پیس کی تمام ٹیم شامل ہے مگر میلے کی کامیابی کا سہرا کومل گڑیا کو ہی جاتا ہے۔
میلے کے پہلے دن ہماری واپسی رات نو بجے ہوئی، دوسرے دن شام چھے بجے باقی اسٹال والوں کے ساتھ ہم نے بھی اپنا سامان باندھنا شروع کر دیا ۔ اور سرشار دل کے ساتھ میں اورملک عمران صاحب دل کی گہرائیوں سے پریس فار پیس کی ٹیم کی کامیابیوں کی دعائیں دیتے گھر کی طرف رواں دواں ہو گئے اور گھر پہنچ کے گوڈوں ،گٹوں اور پیروں نے خوب گلے شکوے کیے، گوڈے چٹک رہے تھے، پیر سوج رہے تھے اور ہائے گوڈے، ہائے گٹے اوور ہائے پیر کرتے نیند کی دیوی کی میٹھی آغوش میں چلے گئے۔
عالیہ بٹ
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.