ادیبہ انور۔ یونان
چمن بھی آباد ہے
پھول بھی کھلتے ہیں
پر ان پھولوں پر اب تتلیاں نہیں آتیں
امید کی روشنی لے کر
جگنو بھی چھپ گئے ہیں کہیں۔
بھنوروں کی وہ حمد سرائیاں بھی
اب کانوں میں نہیں گونجتیں۔
پھول بچانے کے واسطے
باغبانوں نے جو زہر
پھولوں پر چھڑکا تھا
وہی زہر ان کی اپنی سانسوں میں بھی
تو اترا ہو گا؟
اسی زہر سے خون سفید ہو گئے ہیں شاید
یونہی ان کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔
اب بچوں کوتیتلیوں اور جگنو
کی کہانیاں سناتے ہیں
تو نظر جھک جاتی ہے
بچے اگر پوچھیں گے تو کیا بتائیں گے؟
جگنو کیسے چمکتے ہیں ؟
تتلیوں کے رنگ
کیسے ہوتے ہیں؟
وہ دیو ہم ہی تو ہیں۔
جو کھا گئے ہیں۔
ان حسین نظاروں میں اڑتے پھرتے
تتلیاں اور جگنو اور بھنورے
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.