پچھلے موسم کی وبا اور پرائے ہوئے لوگ
یاد آئے ہیں بہت آج بھلائے ہوئے لوگ
ان کی آنکھوں کےدریچوں سےقضا جھانکتی ہے
وہ شب تار ، وہ ہجرت کے ستائے ہوئے لوگ
ان گنت لاشوں کے انبار پہ ہیں استادہ
شاخ زیتون کی ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے لوگ
فقر کی سان چڑھائی ہوئی شمشیر لئے
پھر ابھرنے کو ہیں دنیا میں دبائے ہوئے لوگ
وہ ترا در ، وہ چھلکتا ہوا پیمانہء شوق
وہ مئے دید سے پھر وجد میں آئے ہوئے لوگ
مجھکو کاندھوں پہ اٹھاتے ہو تو ڈر جاتا ہوں
خاک بن جاتے ہیں کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے لوگ
اس نئے دور کے آداب نئے ہیں بزمی
دوست ہوتے نہیں سب ہاتھ ملائے ہوئے لوگ
سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور راجستھان انڈیا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.