تحریر و تصویر: جہانگیر تاج مغل
گزشتہ سال ڈاکٹر سلیم الرحمن پاکستان تشریف لاۓ ۔ جب انھوں نے آمد کی خبر دی تو دل ان سے ملنے کو بے تاب ہونے لگا ۔ چوں کہ طویل مسافت کر کے پاکستان پہنچے تھے ۔ ایک طرف طویل سفر کی تھکاوٹ اور دوسری طرف رشتہ دار مسلسل ملاقات کو آرہے تھے تو اس نا چیز کو غالباً دس دن بعد شرف ملاقات حاصل ہوا ۔ خیر ایک دوپہر ان کا ہنگامی فون آیا کہ دو دن بعد میری واپسی کی فلائیٹ ہے آج تین ساڑھے تین بجے آپ آجائیں ۔ تو میں غالباً ساڑھے تین بجےان کے مغل پورہ میں واقع گھر کو تلاشتا پہنچ گیا ۔ بہت تپاک سے ملے اور کم و بیش دو گھنٹے تک ان سے گفتگو ہوئی جس کی میں نے ریکارڈنگ بھی کی تھی ۔بعد ازاں ان سے دسخط شدہ کتابیں تحفے میں ملیں ملیں اور میں نے انھیں مقالے کی کاپی پیش کی تو بہت خوش ہوۓ ۔
سلیم الرحمن صاحب کا شمار نئی شاعری کے ایک معتبر حوالے کے طور پر ہوتا ہے ۔ وہ اس نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے نظم کا قدیم کلیشے توڑنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ ان کا پہلا مجموعہ ” شام کی دہلیز ” اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جس کی کئی ایک نظمیں جیسے کہ “سوالوں کی زنجیر ” “ایک کتبہ ” ” بیمار لڑکی ” ” ہسپتال ” اور ” دریا ” اردو کی اہم ترین نظموں میں شمار ہوتی ہیں ۔ اس ناچیز کو ڈاکٹر صاحب کی نظم نگاری اور غزل گوئی پر ایم فل کا مقالہ لکھنے کا موقع ملا تو حیرت ہوئی کہ اتنا بڑا نظم نگار ادبی حلقوں میں غیر معروف کیوں ہے تو پتہ چلا کہ وہ رائل کالج آف میڈیکل برطانیہ میں نیوروسرجری میں پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہےہیں جس بنا پر اپنی شاعری کو اتنا وقت نہ دے سکے اور ادبی حلقوں میں بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ لیکن کتاب سے ناطہ نہیں ٹوٹنے دیا اور نت نئی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں ۔ اس لیے ان کا مشاہدہ مطالعے اور تجربے کی کسوٹی پر پک کر انتہائی پختہ ہو چکا ہے ۔ ان کی نظمیں پختگی کی عمدہ مثال ہیں ۔ ان کی نظموں میں جدید منظر نامہ مکمل آب و تاب سے حقیقت نگاری کی انتہاؤں کو پہنچ کر انسان کو نہ صرف سوچنےپر مجبور کرتا ہے بلکہ نیو ورلڈ آرڈر کی تمام گرہیں بھی کشا کرتا ہے۔ ” تیسری دنیا کا چہرہ ” اور ” نیا سال ” انتہائی اہم نظمیں ہیں جس میں نیو ورلڈ آرڈر اور اجنبی دیسوں میں مسافروں کا کامیاب مرقع کھینچا ہے جو انسان کو جنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اور سوچنے پر مجبورکر دیتاہے ۔ اجنبی دیسوں میں مسافر احساس تنہائی کا جس طرح شکار ہوتا ہے اور جیسے اسے ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے سلیم الرحمن کی نظموں میں من عن نظر آتا ہے ۔ اجنی دیسوں میں تیسری دنیا کے باشندے آباد تو ہو جاتے ہیں لیکن وہ ان کو کبھی بھی نہیں اپناتے اور ہرلحظہ دھتکارتے ہیں لہذا لہذاوہ ثقافتی نسیاں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
یہاں ان کی دو نظمیں درج کر رہا ہوں ۔ جس سے اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گا کہ وہ کتنے بڑے شاعر ہیں ۔
1 ۔ تیسری دنیا کا چہرہ
میں نے دیکھا ہے اسے
” اورلی ” اور ” دہیتھ رو ” پر
ہاتھ میں تھامے ہوۓ کاغذ کے پرزے
ورک پرمٹ , اجنی گمنام لوگوں کے پتے
مفلسی کا بوجھ , غم کے سوٹ کیس
آنکھ میں مانگا ہوا دنیاۓ نو کا خواب
خوب صورت , بےتعصب روشنی ہی روشنی
کتنے میلوں دور لیکن ایک دھڑکن سے قریب
کوئی ہلتا ہاتھ, روتی آنکھ , کتنے الوداع
اب سفر کے موڑ پر ہے
بے مُروّت یخ بدن , باد شمال
نفرتوں کا زہر ہونٹوں پر لیے ریشہ ریشہ چیر دے گی
تیسری دنیا کا چہرہ
بے ضمیری کی علامت اک بھکاری , اک سوال
رات دن تنہائیوں کے
” بولے وارڈ ” اور ” ایوے نیو ” پر
پتی پتی اس کے ہر خواب کو بکھراۓ گا
*****************************
2 ۔ اجنبی سرد آسماں
میری کھڑکی کے شیشے سے چمٹا ہوا
کل کے اخبار کا ایک ٹکڑا
ہواؤں کی شدت سے میری طرح کانپتاہے
پنہ مانگتا ہے
لرزتا ہے ۔
میرے کمرے کے نیچے
زمین دوز ریلوں کی دن رات کی آمدو رفت سے
میرا دل میری کنپٹیوں میں دھڑکتا ہے ۔
بس ۔ شانتی ! شانتی !!
شانتی شانتی مانگنے والے شاعر کے اس شہر کا
شور میری رگیں چیرتا ہے
زمیں پھیلتے پھیلتے آسماں کو نگلنے لگی ہے
برف زاروں سے گزری ہوا
اب نسوں میں بھی چلنے لگی ہے ۔
شہرِ ہجراں میں خواہشیں بدن بن کے جلنے لگی ہے
روشنی کے لبادے سے خالی
کہیں صبح شاید نکلنے لگی ہے ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.