تاثرات: نصرت نسیم
الحمدللہ ثم الحمدللہ
شکر بسیار وبے شمار خداے رحیم وکریم کا جس کے کرم کا کوئی حساب نہیں کوئی حد نہیں ۔
میری خود نوشت” بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں “پر لکھا گیا یہ مقالہ آج بزریعہ ڈاک موصول ہوا ۔
گورنمنٹ صادق کالج وومن یونیورسٹی بہاولپور کی طالبہ شائستہ نور نے میری کتاب پر اپنا تھیسس مکمل کیا ۔
گزشتہ سال جب میں دوبئی سے واپس آئی تو اس بچی نے رابطہ کیا کہ وہ میری خود نوشت پر کام کرنا چاہتی ہے۔
اس نے کچھ سوال پوچھے ۔
اس کے بعد میری بیماری بڑھتی چلی گئ اور میں پاؤں کے فریکچر اورپے درپے آپریشنز اورمختلف طبی مسائل کا شکار رہی۔یہ بچی کبھی کبھی میری خیریت پوچھتی اور دعائیہ پیغام بھیجتی ۔
پھر دوماہ پہلے اس نے کچھ سوال پوچھے۔میری باقی تصانیف کے بارے میں پوچھا اور بتایا کہ اس نے اپنا تھیسس مکمل کرلیا ہے ۔تو مجھے خوشگوارحیرت اورمسرت ہوئی کہ شائستہ نے بہت اچھے اندازاورمحنت سے اپنا کام مکمل کیا ۔ شائستہ کے کامیاب دفاع اورکامیابی کے بعد ان کی نگراں میم عالیہ مجید سے فون پر پہلی دفعہ بات ہوئی ان کا شکریہ ادا کرتے ہوے پوچھا کہ آپ تک میری کتاب کیسے پہنچی ؟انہوں نے بتایا کہ ہماری یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود تھی ۔مجھے اچھی لگی اور میں نے شائستہ کو کہا کہ وہ اس خود نوشت پر اپنا مقالہ تحریر کرے ۔
گورنمنٹ صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاولپور کی بنیاد نواب سر صادق خان عباسی پنجم نے 1944 میں خواتین کے لیے ایک انٹرمیڈیٹ کالج کے طور پر رکھی تھی۔اور 2013 میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔
اس تاریخی درسگاہ کے شعبہ اردو کی میم عالیہ مجید نے” بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں “پر اپنی نگرانی میں بی ایس اُردو کی شائستہ نور سے تھیسس مکمل کروایا ۔
شائستہ نور کے مقالے کو پڑھ کر جہاں اس کی محنت اور لگن نظر آتی ہے ۔وہاں ان کی نگراں میم عالیہ مجید کا میری خود نوشت کا انتخاب، بہترین رہنمائی اور محنت بھی صاف دکھائی دیتی ہے ۔
اس اساطیری اور قدیمی یونیورسٹی سے اپنی خود نوشت “بیتے ہوے کچھ دن ایسے ہیں ” پر ایک معیاری اور عمدہ مقالے کی اشاعت بے پایاں مسرت وانبساط اور باعث شکر ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.