تحریر و تحقیق : مرزا فرقان حنیف
تصاویر : محکمہ سیاحت آزاد کشمیر ۔ سوشل میڈیا
Exclusive
تحریر وتحقیق کے اس سلسلے میں ہم آپ کو آزاد کشمیر کے تمام اضلاع کی مکمل معلومات فراہم کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ ہماری ویب سائٹ پہ سلسلہ وار شائع کی جائیں گی۔ اس سلسلے کی پہلی تحریر قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
آذاد جموں کشمیر ریاست جموں و کشمیر کا وہ حصہ ہے جو پاکستان کے زیرانتظام ہے۔ یہ دس اضلاع تین ڈویژنز اور بتیس تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ آزاد کشمیر کا ہر ضلع اپنی تاریخ تہذیب و ثقافت میں منفرد مقام رکھتا ہے۔
ضلع نیلم
نیلم کا پرانا نام دراوہ ہے۔ 1956 میں آزاد کشمیر حکومت کی کابینہ نے کشن گنگا کا نام دریائے نیلم اور دراوہ کا نام وادی نیلم قرار دیا۔ یوں کل کا دراوہ آج کی وادی نیلم ہے۔ آزاد کشمیر کا یہ ضلع رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے۔ وادی نیلم کو 2005 میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اس ضلعے کا ہیڈ کواٹر اٹھمقام ہے۔ وادی نیلم دلکشی اور خوبصورتی میں اپنی مثام آپ ہے یہاں پہاڑ، میدان، وادیاں، جھیلیں ندی نالے دریا اور چشمے موجود ہیں۔
جغرافیہ، موسم، آبادی
ضلع نیلم 34.82 عرض بلد اور 74.34 طول بلد پر واقع ہے۔ اس کے شمال اور شمال مشرق میں گلگت بلتستان کا ضلع دیامر، استور اور سکردو ہے مشرق میں مقبوضہ جموں کشمیر کا ضلع کپواڑہ اور بانڈی پورہ جنوب مغرب میں ضلع مظفرآباد اور مغرب میں خیبر پختونخواہ کا ضلع مانسہرہ واقع ہے۔
چہلہ بانڈی پل سے لیکر تاؤ بٹ تک وادی نیلم کی لمبائی 240 کلو میٹر جبکہ چوڑائی 30 کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ وادی نیلم کا کل رقبہ 3621 مربع کلو میٹر ہے جو کہ ریاست آزاد کشمیر کا 27.02 فیصد بنتا ہے ۔یہ ضلع دو تحصیلوں اٹھمقام اور شاردا نو یونین کونسلز باڑیاں، بانڈی اشکوٹ، کنڈل شاہی، شاہکوٹ، نیلم، دودنیال، شاردا، کیل اور گریز پر مشتمل ہے.
وادی نیلم انتہائی سرد علاقہ ہے موسم سرما میں یہاں شدید برف باری ہوتی ہے۔ گویا دھرتی نے سفید چادر اوڑھ لی ہو۔ جبکہ موسم گرما میں یہاں کا موسم خوشگوار ہوتا ہے۔
اس ضلع کی کل آبادی دو لاکھ ہے۔
قبائل ،زبانیں، سبزیاں پھل۔
وادی نیلم میں مختلف ذات برادریوں کے لوگ آباد ہیں۔ جو آپسی محبت بھائی چارے کی بہترین مثال ہیں گویا ایک ہی گلدستے میں موجود مختلف خوشبوں اور رنگوں کے پھول ہوں۔ وادی نیلم میں موجود قبیلوں میں مغل،بٹ، گجر، داردک، نانترے، ماگرے، لون، خواجہ، سید، یوسفزئی اور سواتی منہاس شامل ہیں۔
زبانی لحاظ سے وادی نیلم انتہائی دلچسپ خطہ ہے۔ وادی نیلم میں شینا ،کشمیری، گوجری، پشتو، اور کنڈل شاہی بولی جاتی ہے۔ کنڈل شاہی علاقہ کنڈل شاہی میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے۔ کنڈل شاہی میں اس زبان کو بولنے والوں کی تعداد 700 ہے۔ لیکن یہ لوگ بھی اب ہندکو میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ نیلم میں شینا دو قسم کی بولی جاتی ہے۔گریسی شینا اور چلاسی شینا۔ گریسی شینا تاو بٹ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی ہے جبکہ چلاسی شینا علاقہ پھولوائی میں بولی جاتی ہے۔ ضلع نیلم میں گوجری بھی بولی جاتی ہے مگر یہ زبان بھی نیلم میں آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ گجر خاندان مرناٹ، اشکوٹ، جاگراں، کٹن، کھریگام میں بڑی تعداد میں آباد ہیں لیکن یہ لوگ بھی اب ہندکو بولتے ہیں البتہ کچھ گھروں میں آج بھی گوجری بولی جاتی ہے۔
وادی نیلم میں ایک بڑی تعداد کشمیری بولنے والوں کی ہے۔ نیلم میں بولی جانے والی کشمیری مظفرآباد میں بولی جانے والی کشمیری سے مختلف ہے۔ اس کے علاوہ ڈھکی اور چنگناڑ کے علاقوں میں پشتو بولنے والے لوگ بھی ہیں۔ مگر یہ لوگ اسے پشتو کی بجاے پختو کہتے ہیں۔ بلاشک و شبہ زبانوں پر تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ خطہ کسی جنت سے کم نہیں ہے۔
وادی نیلم کے لوگوں کی خوبصورتی صحت و تندرستی اور لمبی عمر کا راز یہاں کی آب و ہوا اور پانی کے ساتھ ساتھ یہاں کی سبزیاں اور پھل ہیں۔ وادی نیلم میں عام طور پر مکئی کاشت کی جاتی ہے وادی نیلم کے لوگ تازہ سبزیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ وادی نیلم میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس کے ساتھ چھوٹا باغیچہ نہ ہو۔گھریوں باغبانی یہاں کا لازمی جُز ہے۔ کڑم وادی نیلم کی مشہور و معروف سبزی ہے۔ یہاں اس سبزی کو بہت پسند کیا جاتا ہے اسکا آچار بھی بنایا جاتا ہے اس کے علاوہ بھنڈی، لوبیا پھلیاں، کھیرا جسے مقامی زبان میں (تریڑیاں) کہا جاتا ہے، مرچ،سلاد ٹماٹر (چینگڑ) یہاں کی گھریلوں باغبانی کا لازمی حصہ ہیں۔ ٹماٹروں کو یہاں کے لوگ خشک کر کے سردیوں میں استعمال کے لیے محفوظ کر لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نیلم میں جنگلی سبزیاں بھی بہت پسند کی جاتی ہیں۔ جن میں کیاری، لانگڑو، کُنجی، کنڈیرا، تروبڑا، شلی شامل ہیں۔
وادی نیلم میں پائے جانے والے پھلوں میں خوبانی،اخروٹ، آڑو، ناشپاتی، آلوبخارا، سیب، لوکاٹ، املوک، اور آنار شامل ہے۔ اخروٹ واحد پھل ہے جو یہاں کے لوگوں کے روزگار کا باعث ہے۔یہاں دیسی اور جنگلی اخروٹ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ وادی نیلم کے سیب کے درخت ریاست جموں کشمیر کی دیگر اکائیوں میں موجود سیب کے درختوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ یہاں کے درخت سیدھے اور اونچے ہوتے ہیں۔ ان درختوں کی اونچائی ساٹھ سے ستر فٹ ہوتی ہے۔ وادی نیلم میں سب سے اعلٰی کوالٹی کا سیب وادی چنجاٹھ کا ہے جسے امبری سیب کہا جاتا ہے
دریائے نیلم (کشن گنگا)
دریائے نیلم کا پُرانا نام کشن گنگا ہے.1947 کے بعد اس کا نام تبدیل کر کے دریائے نیلم رکھا گیا۔ یہ دریا اپنے صاف و شفاف پانی اور تیز بہاو کی وجہ سے مشہور ہے۔ نیلم میں اس دریا سے لکڑی سپلائی کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ اس دریا کا منبع ‘اشنہ سر’جھیل ہے جو مقبوضہ کشمیر کے علاقہ گریز سے 50 میل مشرق کی سمت دراس کی پہاڑیوں میں 17,000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ آزاد کشمیر میں یہ دریا تاو بٹ کےمقام سے داخل ہوتا ہے۔ وادی نیلم کی بلند و بالا پہاڑیوں سے گزرتا یہ دریا مظفرآباد میں دومیل کے مقام پر دریائے جہلم میں شامل ہو جاتا ہے۔
جھیلیں۔
وادی نیلم کی خوبصورتی کا ذکر کیا جائے اور وہاں کی دلکش اور صاف شفاف پانی سے بھری جھیلوں کا ذکر نہ کیا جائے تو یقیناً تحریر ادھوری ہی لگتی ہے۔ یہ جھیلیں وادی نیلم کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق وادی نیلم میں 20 سے 30 چھوٹی بڑی جھیلیں ہیں۔ یہاں کی چند مشہور جھیلوں کو ذکر کرتے ہیں۔
رتی گلی جھیل۔
رتی گلی جھیل نیلم کے علاقے دواریاں کے قریب 15000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ مظفرآباد سے اس کا فاصلہ 80 کلو میٹر ہے۔ اس جھیل کے اردگرد وسیع و عریض میدان نہایت ہی خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں سفری مشکلات کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔
چٹہ کھٹہ جھیل۔
چٹہ کھٹہ ہندکو زبان کے دو الفاظ ہیں۔چٹہ کے معنٰی سفید کے ہیں جبکہ کھٹہ کے معنٰی ندی کے ہیں۔ مطلب سفید ندی۔ جھیل علاقہ شونٹھر میں 17000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ شونٹھر ایک نالہ ہے۔ یہ نالہ کیل شورونگی کے مقام پر دریائے نیلم میں شامل ہوتا ہے۔ کیل سے شونٹھر تین گھنٹوں میں پہنچا جا سکتا ہے۔ جھیل تک سفر پیدل کرنا پڑتا ہے۔ یہ جھیل تقریباً نو ماہ برف سے ڈھکی رہتی ہے۔
ڈک جھیل۔
ڈک جھیل وادی نیلم کے علاقے جینوائی میں کافی اونچائی پر واقع ہے۔ کیل سے علاقہ جینوائی کا فاصلہ قریب 20 کلو میٹر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ جھیل سطح سمندر سے 13000 فٹ کی بلندی پر ہے۔ جھیل کا نام یہاں کے لوگوں نے ڈک سر رکھا ہے۔ جھیل چونکہ پہاڑوں کے درمیان ہے اس لیے اسے ڈک جھیل کہتے ہیں۔ جھیل تک پہنچنے کے لیے انتہائی پُر خطر راستوں سے گزرنا پڑتا ہے لیکن جھیل کی خوبصورتی سفر کی ساری مشکلات بُھلا دیتی ہے۔ اس جھیل کا قطر دو سے ڈھائی کلو میٹر ہے اس کی خوبصورتی انسان کو خیرت میں ڈال دیتی ہے۔
آثارقدیمہ۔(شاردا یونیورسٹی، شاردا پیتھ)
تاریخی اہمیت کا حامل علاقہ شاردا آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد سے 136 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ شاردا پیتھ کی یہ عمارت علاقے کے وسط میں دریائے نیلم کے بائیں کنارے واقع ہے۔ 3058 قبل مسیح، وسط ایشاء سے آنے والے برہمن جو علم دوست اور مہذب لوگ تھے یہاں آباد ہوئے شاردا دیوی انہی کی تخلیق بتائی جاتی ہے۔ شاردا دیوی کو علم و حکمت کی دیوی مانا جاتا ہے۔ شاردا یونیورسٹی شاردا دیوی کے پتھروں سے بنائے گے مندر کے گردنواح میں کوئی جگہ تھی جس میں طلبا کو دنیاوی اور روحانی علوم کے علاوہ فائن آرٹس کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔بحوالہ: کتاب، شاردہ تاریخ کے ارتقائی مراحل۔ صفحہ نمبر144
یہ عمارت شمالاً جنوباً مستطیل چبوترے کی شکل میں ہے۔یہ تقریباً 36 فٹ اونچا ہے چاروں اطراف دیواروں پر نقش ونگار بناے گے ہیں، جنوب کی طرف ایک دروازہ ہے، چھت کا اب نام ونشان بھی نہیں اشکال کو پتھروں میں کرید کر بنایا گیا ہے یہ جگہ کشمیری پنڈتوں کے لیے بہت مقدس ہے 1947 تک کشمیری پنڈت ہر سال اگست کی 26 تاریخ اس کی یاترہ کرنے دوردراز کے علاقوں سے آتے تھے۔
قیمتی پتھر
یہ حقیقت ہے کہ وادی نیلم کی سرزمین معدنیات سے مالا مال ہے۔ اس سرزمین پر اللہ تعالٰی کا خاص فضل و کرم ہے۔ یہاں کی مٹی اپنے اندر قیمتی پتھروں کا زخیرہ لیے ہوئے ہے۔ یہی قیمتی پتھر اس خطے کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی ہیں۔ وادی نیلم میں یاقوت، زمرد،اکوامیرین،پیراڈاٹ ، جیسے قیمتی پتھر اس علاقے کی اہمیت کو مزید چار چاند لگاتے ہیں۔ وادی نیلم کا شونٹھر پہاڑ قیمتی پتھر “روبی” کی وجہ سے مشہور ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کے اس کی کم ازکم مالیت 12 ارب ڈالر سے زائد ہے۔
جنگلات۔
نیلم کے چھ لاکھ ستتر ہزار ایکڑ رقبے پر جنگل ہے۔ یہاں کا دیودار دنیا میں اعلٰی قسم کا دیودار مانا جاتا ہے۔ نیلم کے بالائی پہاڑوں پر کائل، اور بھوج پتر بھی پایا جاتا ہے۔ بھوج پتر وادی گریس کے اونچے جنگلات میں بھی پایا جاتا ہے۔ بھوچ پتر کی چھال اتاری جائے تو تہہ در تہہ ملائم کاغذ نکلتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وادی نیلم کے جنگلات میں دیودار، چیل، اور پڑتل کے درخت پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں خوبانی، اخروٹ، آڑو، ناشپاتی، آلوبخارا، سیب، لوکاٹ، توت، املوک، اور انار کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔ وادی نیلم کے لوگوں کا تمام دارومدار جنگلات پر ہے۔ متبادل ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے لوگ لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔ اینڈیپینڈینٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق وادی نیلم میں ہر سال ستر ہزار سے زیادہ درخت کاٹے جاتے ہیں جو نہایت تشویشناک ہے۔ حکومت آزاد کشمیر کو چاہیے کہ یہاں کے لوگوں کے لیے متبادل ذرائع کا بندوبست کرے تاکہ جنگلات کا مزید کٹاو نہ ہو۔
سیاحت۔
وادی نیلم کے مشہور سیاحتی مقامات۔ اٹھمقام، کنڈل شاہی، دودنیال، جاگراں، کیرن، دواریاں،لوات، شاردا، کیل، رتی گلی جھیل، جانوئی، پھولوائی، اور شونٹھر ٹاپ۔
سیاحت کسی بھی علاقے کی معاشی ترقی غربت اور بےروزگاری کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس کے لیے حکومت کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وادی نیلم نہ صرف قدرتی حُسن و مناظر سے مالا مال ہے بلکہ یہ خطہ قدیم تاریخ اور ثقافت کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
یہاں کی تازگی بخشتی ٹھنڈی ہوائیں ہوں یا بادلوں کو چھوتے اونچے پہاڑ، جگہ جگہ ٹھنڈے پانی کے چشمے ہوں، یا اپنی چنگھاڑ سے ہیبت طاری کرتا دریائے نیلم، سرسبز ہرئے بھرئے میدان ہوں یا پھولوں سے بھرے مہکتے باغات، طرح طرح کے پھل ہوں یا جنت کا عکس پیش کرتی جھیلیں، کانوں کو فرحت بخشتی بانسری کی دُھن ہو یا قلب کو اطمینان بخشتی پرندوں کی آوازیں، ماضی کی عظیم تہذیب کی یاددلاتا شاردا مندر ہو یا حال کے مہمان نوازی سے بھرے سچے لوگ، دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہاں کا چپہ چپہ قدرت کی نعمتوں سے مالا مال اور دنیا بھر کے سیاحوں کا منتظر ہے۔
حکومت آزاد کشمیر کو چاہیے کہ وادی نیلم میں سیاحت کے شعبے کو اپنی اولین ترجیحات میں جگہ دے اس سے نہ صرف بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا ساتھ ہی ساتھ حکومت کو بھی قیمتی زرِمبادلہ حاصل ہو گا۔
انشااللہ جلد اس سلسلے کی اگلی تحریر لے کر قائین کی خدمت میں حاضر ہوں گا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.