کتاب کا نام: انجانی راہوں کا مسافر
مصنف: امانت علی
مبصرہ: ماوراء زیب
ناشر: پریس فار پیس فاؤنڈیشن، یوکے
کائنات کے محور کو افشاء کرنے کی کوشش کا نام سفر ہے اور سفر نامہ اصل میں روداد ہے اس کوشش کا جو ایک مسافر رازِ کائنات کو طشت از بام کرنے کے لیے کرتا ہے۔ بہت سے مسافروں نے دنیا کے مختلف حصوں کی خاک چھانی ہے صرف اس لیے کہ وہ رازِ کائنات سے واقفیت پاسکیں یا پھر اپنی اندرونی حس کی تسکین کرسکیں۔ وہ حس جو ہر انسان کے اندر ہوتی ہے اور اس میں دنیا کو جاننے کا تجسس ابھارتی ہے۔
بعض مسافروں میں سفر کرنے کی حس کے ساتھ ساتھ ایک اور حس ہوتی ہے جو مسافر کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ اپنا تجربہ اور سفر کی روداد تفصیلاً دوسروں کو بتائے۔ سفر نامے کے ذریعے ہر قاری دراصل مصنف کے ساتھ سفر پر نکل پڑتا ہے اور مصنف کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتا ہے۔ سفر کرنا ایک تھکا دینے والا عمل ہے اور سفر نامہ لکھنا اس سے بھی زیادہ کٹھن عمل۔ ایک اچھے سفر نامے میں تمام ادبی لوازمات ہونا ضروری ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی وہ ادب میں اپنا مقام حاصل کرپاتا ہے۔
امانت علی کا سفر نامہ ”اجنبی راہوں کا مسافر“ اس لحاظ سے منفرد سفر نامہ ہے کہ یہ ایک انگریزی کے استاد کے قلم سے نکل کر صفحۂ قرطاس پر بکھرا ہے۔ سفر نامے میں ترکی اور خلافت کی تاریخ نے سفر نامے کا لطف دوبالا کردیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ سفر نامہ معلوماتی سفرنامے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ کچھ جگہوں پر جملوں کی بناوٹ پر مصنف کی گرفت کمزور ہوئی ہے لیکن پختہ معلومات نے اس کمزوری پر بہت حد تک قابو پایا ہے۔ ترکی اور کینیا کی سیاحتی جگہوں کی معلومات نے اس سفرنامے کی حیثیت بڑھادی ہے۔ اس سفر نامے میں مصنف کا ذوق اور شوقِ سفر بہت نمایاں ہے۔ اس سفر نامے کی صورت مصنف نے پاکستانی معاشرے کی خامیوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان خامیوں کا حل بھی بتایا ہے۔ یورپ اور ایشیا کا ایک خوبصورت تقابل اس سفرنامے میں موجود ہے۔
کتاب میں عمدہ اور متاثر کن نثر کے نمونے جگہ جگہ ملتے ہیں۔ ایک نو آموز قلم کار کے لکھے ہوئے ادبی شہ پاروں سے مختار مسعود یا واصف علی واصف کا سا رنگ نظر آتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ دو اقتباسات ملاحظہ کریں:
“کسی بھی سفر کی خوبصورتی یہ ہے کہ جلد یا بدیر اس کی منزل آجاتی ہے تاہم مسافر مسافر ہی ہوتا ہے ۔ایک دن اسے اپنی منزل پر واپس لوٹ جانا ہے ۔ ۔بھلے مسافر کی روح بے چین رہتی ہے لیکن انجانی راہوں ،منزلوں اور راستوں کی تڑپ اسے بے قرار رکھتی ہے۔
جہا ز نے اڑان بھر لی اور میرے دماغ کے دریچوں میں بشیر بدر کے یہ الفاظ ابھرے :
مسافر کے راستے بدلتے رہے
مقدر میں چلنا تھا چلتے رہے”
( صفحہ نمبر 83)
–ایسے ہی چند منٹوں بعد سعودیہ کی حدود شروع ہو گئی اور تا حدِ نظر صحرا ہی صحرا تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ریاض شہر کی خوبصورت کالونیاں نظر آنا شروع ہو گئیں۔ وہ بلند و بالا برج جو زمین سے دیکھو تو آسمان چھوتے نظر آتے ہیں لیکن اوپر سے سب عمارتیں برابر اور بالکل چھوٹی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں ایک سبق سیکھا کہ اگر نظر کا زاویہ بدلا جائے تو معنی، مطلب، شان و شوکت سب کچھ بدل جاتا ہے۔ یہ فلک بوس پلازے صرف زمین سے اونچے ہیں باقی ان میں کچھ نہیں۔ میر ے نزدیک سفر ہو یا زندگی سب کا یہی حاصل ہے-
(صفحہ نمبر 128)
اس مہنگائی کے دور میں بھی کتاب کی قیمت بہت مناسب ہے۔ پریس فار پیس فاؤنڈیشن نے کتاب کی اشاعت اور صفحے کے معیار پر بہت محنت کی ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے دور میں بھی سفر پر نکلنا اور پھر اس تجربے کو لوگوں کی نذر کرنا سرپھروں کا کام ہے۔ ایسے ہی سرپھروں کی بدولت آج بھی کتاب سے محبت کرنے والے جگہ جگہ بکھرے مل جاتے ہیں۔ اللہ عزوجل مصنف کے شوق اور ادارے کے ذوق کو قائم رکھیں۔ آمین
وہ سرپھرے جو اس جدید دنیا میں کتاب کا سہارا تھامے ہوئے ہیں، خدا ان کا حامی و ناصر ہو آمین
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
ایک خوبوصورت تحریر۔ یہ ایک جامع تبصرہ ہے جس میں غیر ضروری تنقید و توصیف سے گریز کرتے ہوئے سفرنامے کے فنی، معلوماتی اور ادبی پہلو کو موضوع بنایا گیا ہے۔