ڈاکٹر مقصود جعفری
فوزیہ اختر ردا کا تعلق کولکتا بھارت سے ہے۔ اُن کا کلام بھارت اور پاکستان کے اخبارات اور جرائد میں شائع ہوتا ہے۔ چند دن قبل اُن کی واٹسسپ پر ایک غزل زینتِ نظر ہوئی تو جس شعر نے مجھے بہت متائثر کیا وہ تھا
جس کی خاطر ہے کیا میں نے سفر صدیوں کا
کیا مرے واسطے کُچھ پَل وہ ٹھہر جاۓ گا
فوزیہ ردا نے فرمائش کی کہ اُن کی شاعری پر اپنی راۓ دوں اور اپنی زیرِ طبع کتاب “ سپتک “ کا برقی مسودہ بھیجا۔ سپتک سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سات سُروں کا مجموعہ ہے۔ گویا فوزیہ ردا کی شاعری موسیقیّت کی آئینہ دار ہے۔ شاعری کا غنائیت سے گہرا تعلّق ہے۔ انگریزی شاعری میں ولیئم ولیئم شیکسپئیر ، ولیئم ورڑزورتھ، بائرن، شیلے اور جان کیٹس کی شاعری موسیقییّت کی آئینہ دار اور طرزِ بیان کا شہکار ہے۔ فارسی میں حافظ شیرازی اور امیر خسرو جبکہ اردو میں میر تقی میر، غالب، اقبال اور فیض احمد فیض کی شاعری موسیقیّیت سے لبریز اور دلآویز ہے۔ فوزیہ ردا لی شاعری بھی نہایت مترنّم اور سادہ و سلیس ہے۔ اِن کی شاعری موسیقیّیت کا پیکرِ حسین اور آہنگِ دلنشین ہے۔ اُن کا یہ شعر فسونِ عشق اور جنونِ عشق میں تمیز کراتا ہے اور تہذیبِ عشق پر لاجواب شعر ہے۔ کہتی ہیں
آنکھ پُرنم، یہ اُڑا رنگ، لرزتی آواز
یہ تو معمولی سا فنکار بھی کر سکتا ہے
یہ شعر پڑھتے ہی مجھے قابل اجمیری کا شعر یاد آ گیا- وہ کہتے ہیں
کسی کی زُلف پریشاں، کسی کا دامن چاک
جنوں کو لوگ تماشا بناۓ پھرتے ہیں
فوزیہ ردا کی شاعری میں مشرقی نسائیت اور احترامِ عشق اور وقارِ وفا ہے۔ وہ مغرب زدہ شاعرات کی طرح شاعری میں آزادی کے نام پر بے راہروی ، ہوس پرستی اور بے حیائی کا پرچار نہیں کرتیں۔ مشرقی روایات کا اُنہیں پاس ہے۔ ان کی شاعری میں رومانوی اور وجدانی کیف و کیفیّت نمایاں ہے۔ اکثر غزلیات نہایت مترنّم ہیں- کہتی ہیں
آگہی کے راستوں کو بے نشاں سمجھی تھی میں
تُو نظر سے دُور ہے لیکن یہاں سمجھی تھی میں
اِس شعر میں مومن خان مومن کے دل کی آواز دھڑکتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا
تُم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
فوزیہ ردا کی شاعری میں عصرِ حاضر کے تقاضوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اُن کی معاشرے پر گہری نظر ہے۔ گاہے گاہے انقلابی رنگ و آہنگ بھی نظر آتا ہے۔ کہتی ہیں
رہبری اِس دور میں تھکنے لگی
رہزنوں کا قافلہ پہلے سے تھا
اُن کا یہ شعر اُن کے اندر آتشِ انقلاب کی سوزشِ پر گواہی دیتا ہے۔ کہتی ہیں
نہیں منزل تلک کوئی رسائی
کہاں گُم ہو گیا رستہ ہمارا
بنیادی طور پر وہ غزل کی شاعرہ ہیں جن کی شاعری شدّتِ جذبات کی عاشقانہ شاعری ہے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو- کہتی ہیں
اشکوں کے سمندر میں کنارے نہیں ملتے
اب ڈوبنے والوں کو سہارے نہیں ملتے
میری نظر میں وہ نہ صرف محبّت کی شاعرہ ہیں جو جوانی کا تقاضا ہے۔ بلکہ وہ سراپا محبّت ہیں۔ وہ شاعر ہی کیا جو امن و انسانیّت اور محبّت و مرّو ت کا داعی و علم بردار نہ ہو۔ بقول حافظ شیرازی
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائ محبّت کہ خالی از خلل است
فوزیہ ردا کی شاعری جوانی کی تابانی اور اشک افشانی کے ساتھ ساتھ دردِانسانی کا شہکار ہے۔ شاعری بھی خوبصورت اور شاعرہ بھی خوبصورت – دو آتشہ۔ آخر میں استاد فوق لدھیانوی کی کتاب “ زخمِ جاں “ سے یہ شعر اُن کی نذر کرتا ہوں
یہ حُسنِ مجّسم بھی اگر محوِ دعا ہے
اے میرے خدا اور یہ کیا مانگ رہا ہے
اسلام آباد / نیو یارک
۲۲ جون
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.