افسانہ ” امانتیں” تحریر: منزہ اکرم

You are currently viewing افسانہ ” امانتیں” تحریر: منزہ اکرم

افسانہ ” امانتیں” تحریر: منزہ اکرم

منزہ اکرم
تخلیق کائنات کے منصونے پر عمل ہو رہا تھا۔ سورج کی تکمیل آخری مراحل میں تھی۔ ایک بڑے سے کرے میں آگ ،روشنی، دہک ،سرخ رنگ اور جوبن کو تناسب کے ساتھ ملا کر فرشتوں نے نیلے آسمان کی وسعتوں میں اچھالا تو کئی چھوٹے بڑے ٹکرے جو جلتے ہوئے کرے کے ساتھ چپک گئے تھے وہ بھی فضا میں لڑھک گئے ۔نارنجی رنگ کادہکتا ہوا گولا جو کائنات کی واحد خوبصورت چیز تھی ، آن واحد میں بڑی شان اور بڑے وقار کے ساتھ نیلگوں آسمان پر تیرنے لگا۔گرتے ہوئے ٹکروں میں سے ایک کی نظراس پر پڑی تو مبہوت رہ گیا ۔ نگاہیں جمی تو جمی ہی رہ گئیں۔سورج کی نظر اس ٹکرائی تو اس نے اک ادائے بے نیازی سے پلکیں جھپکا کر نگاہ دوسری طرف پھیر لی۔ ٹکرے نے ایک نظر سورج پر ڈالی تو دوسری یکلخت اپنے اوپر ڈال بیٹھا ۔ رنگت و جسامت کاموازنہ کرنے کے لیے اس نے بے خود ہو کر سورج کے گرد چکر لگایا مگر ایک فاصلے کا ساتھ ، فرق مراتب کو مد نظر رکھتے ہوئے، پھر دوسرچکر کاٹا۔ وفور جذبات سے، کم مائیگی کیاحساس کے ساتھ ، ڈرتے ڈرتے بے دلی سے اس نے سورج کے مالک سے کہا’’کسی کودینا چاہو تو مجھے بھی نظر میں رکھنا‘‘ ۔ اتنا کہا اور اپنے آپ میں شرماتے ہوئے جواب سنے بغیر تیزی سے بھاگ گیا۔ سورج کے مالک کو ایسی بہترین چیز کا ایسا بھونڈا تقاضہ سورج کی توہین لگا مالک نے ڈانٹ کر کہا ’’ ہٹ ہٹ اسکی عطا تجھے تو رد ہے‘‘۔وہ یک لخت ناکام اور مایوس ہوگیا مگر سورج کی کشش نے اس کو کھینچ لیا تھا۔وہ یوں ہی اس کے گرد چکر لگاتے رہنے کو ہی حاصل زندگی سمجھ کر صبر کر گیا۔یوں اس ٹکرے کا نام عطاردپڑ گیا۔
سورج کی قربت سے کچھ روشنی عطارد سے بھی منعکس ہونے لگی تو ایک ذرہ اسی پر ریجھ گیا۔ سورج تو اس کے ادراک بھی میں نہ تھا ۔ معصوم معدوم سے ذرو کو بے بسی نے اتنا ذیر کیا کہ عطارد کو سب کچھ سمجھنے لگا اور چھٹتے ہی تقاضا کر بیٹھا۔ عطارد جو پہلے ہی رد عطا کی وجہ سے احساس تذلیل میں مبتلا تھا‘ دوسرے اسکا اپنا مقام سورج کی مانند بن رہا تھا لہذا تکبر کا آنا فطری بات تھی اس نے حقارت سے اس پر ایک نظر ڈالی اور تیوری چڑھا کر زیر لب بولا چہ آمد ؟ ذرے کو لگا جیسے اس نے کہا چامد ۔دوسرے نے ٹہوکا اور آنکھ مار کر پوچجا ’’کیا جواب ملا؟ ‘‘ذرے نے کہا’’ پتا نہیں کہتا ہے چامد دوسرے کو سر گوشی کی غلط سمجھ آئی وہ سمجھا اس نے کہا چاند اچھا! چاند اور اسکا قہقہ یوں پھیلا کہ کائنات میں چاند، چاندکا شور مچ گیا۔اس طرح اس ذرے کو چاند کہا جانے لگا۔مالک کو بھی چاند کی معصومیت بہت اچھی لگی اس نے اسے عطاردبخش دیا۔وہ مارے خوشی کہ نہال ہو گیا اسکے گرد دھمال ڈالنے لگا۔پھر کائنات کا مالک دوسری چیزوں کی تخلیق میں مصروف ہو گیا اور سورج، سیارے اور چاند اپس کی جنگ میں!
چونکہ سورج ہر چیز کو چمکا رہا تھا سو باقی ٹکروں کو اس بات کا احساس ہی نا رہا کہ وہ ادھار کی روشنی سے چمک رہے ہیں سب کو اپنی اپنی ذات میں ایک شان نظر آنے لگی ۔زہرہ میں حسن کا غرور آ گیا اور سورج کا مد مقابل بن گیا کچھ ویران اور بنجر ٹکرے دوسروں کی دیکھا دیکھی سورج کا نطارہ کرنے ہی اس کے حصار میں آگئے۔ کچھ کو سورج کی کشش نے کھینچ لیا ۔ یوں نظام شمسی مکمل ہو گیا ہر ذرہ حسن کا شیدائی،ہر پارہ لاحاصل کا متمنی‘ ایک دوسرے کے گرد گھومتا۔چاند سیاروں کے گرد گھومتے اور سیارے چاندوں سمیت سورج کے گرد گھومتے۔
زمین بھی مدتوں سے آنکھیں موندے سورج کی حرارت سے فیض یاب ہو رہی تھی۔بس جب سردی آتی تو وہ بے چین ہو جاتی۔ایک بار سخت جاڑے کے بعد جاتی سردی کے آخری دنوں میں اس کے دل میں آئی کہ آنکھ کھول کر دیکھوں تو کہ کون ہے جو سکون کا منبع ہے ۔مالک کو اس کی جستجوبھا گئی ۔اس نے چمکا ر کر پوچھا ’’یہ تجھے چاہئے ؟‘‘ زمین نے تشکر کے احساس کے ساتھ کہا ’’ مالک مجھے حرارت کا سکون ہی کافی ہے۔ مالک کو زمین کا عجز پسند آیا پھر اس نے تحفے کے طور پر زمین آباد کر دی اور ایسی مخلوق بسائی جس میں اس نظام کا عکس تھا۔ چاند کا سا احساس زیاں تھااور عطاردکی سی تڑپ بھی ۔
ایک دن ان چک پھیریوں سے تھک کر اور تنگ آکر چاند نے عطارد سے پوچھ ہی لیا ’’تم کس کے پیچھے پاگل ہوآخر تمہارا یہ چکر کب ختم ہو گا۔میرا منتہے اور مقصود بھی تو تم ہو۔کیا میرا نصیب بھی یہی ہے کہ میں تمھارے چکر لگا وں؟‘‘ مگر عطارد نے اس کی پروا ہ نہ کی اور دیوانہ وار سورج کی بلائیں لیتا رہا۔ چاند نے پھر روہانسے ہو کر کہاتم تو مجھے عطا ہوے ہو پھر یہ بے اعتنائی کیوں؟عطارد نے پھر اپنی مستی میں گم کوئی جواب نہ دیا۔چاند پھر گویا ہوا ’’ اچھا جاؤ تم میری امانت ہو جو میں نے سورج کو بخش دی ۔بے بسی سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے جیسے سمجھ گیا ہوکہ طلب میں تڑپ ہے اور تسکین میں تباہی ہے۔یہ ہے نظام زندگی جس میں ہر ٹکرا پیاسا‘ اک آواگون‘بدروہوں کا مسکن جہاں ہر ذرہ بے چین ! ہر ایک طالب‘ ہر ایک مطلوب‘ سب ایک دوسرے کی امانت اور سورج بیچارہ یکا و تنہا صرف مطلوب۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.