تحریر: مظہر اقبال مظہر
ہم اس زبان کو کبھی نہیں بھولتے جو ہماری ماؤں نے ہمیں سکھائی ہوتی ہے۔ ماں بولی کے ساتھ ہمارے اس لازوال رشتے کی ان گنت تخلیقی، نفسیاتی، لسانی، ذہنی، جذباتی اور جبلتی جہتیں ہیں۔ ان سب پر الگ الگ انداز سے بہترین ریسرچ ہو چکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم سیکھنے کے عمل میں اور خاص طور پر زندگی کے ابتدائی سالوں میں مہارتوں کے حصول میں اپنی پہلی ابلاغی زبان کے ساتھ سہولت محسوس کرتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشی، معاشرتی اور سماجی تقاضے اس سہولت سے مطابقت نہیں رکھتے اس لیے ہم اس قدرتی ابلاغی صلاحیت کا بہترین فائدہ نہیں اٹھاتے۔ یوں ہماری ذہنی، فکری، علمی اور تخلیقی ترقی ایک جبری تعلیمی حصار کے اندر فروغ پاتی ہے۔
ویسے تو زبان اشاروں کنایوں کی بھی ہوتی ہے مگر عمومی طور پر زبان سے مراد وہ ذریعہ اظہار ہے جو بولنے، لکھنے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں زبان دانی کے حوالے سے بولی کا لفظ بھی بہت زیادہ استعمال ہوتاہے۔ زبان اور بولی دو ایسی اصطلاحیں ہیں جن کا آپس میں رشتہ گہرا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ دو سگی بہنیں ہیں جن میں سے ایک پڑھی لکھی اور شائستہ ہے جبکہ دوسری پڑھنے لکھنے سے دور بھاگنے والی مگر انتہائی جہاندیدہ، عقل مند، ہوشیاراور زیرک نگاہ ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں بولی تکلم کے زمرے میں آتی ہے یعنی بولی جانے والی زبان۔ بات چیت، بول چال، روزمرہ کی زبان جسے شائد لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
اپنی بولی بولنے والا کبھی بھی لفظوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ مشکل ترین اور پیچیدہ باتوں کو بڑی سہولت سے سیدھے سادھے الفاظ میں بیان کرلیتا ہے۔اگر بچہ بھی ہو تو اپنی بات مختصر ترین الفاظ میں مخاطب تک پہنچا لیتا ہے اور مخاطب کی بات سمجھ بھی لیتاہے۔ اور اگر تجربہ کار اور عمر رسیدہ ہو تو اس کی بولی میں الفاظ، محاوروں، ضرب الامثال، کہاوتوں، قصے کہانیوں، دلچسپ روایات اور پرُمغز باتوں کا ایک جہان آباد ہوتا ہے۔ جب یہی علمی و ثقافتی ورثہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے تورسوم و روایات اور ثقافت کو زندگی ملتی ہے۔ تاہم جب نئی نسل اس علمی اور ثقافتی وسیلے کو اپنانے سے کترانے لگے تو یوں سمجھ لیں کے وہ بولی ہی نہیں بلکہ اس سے جڑی ہر خوبصورت روایت، شناخت، سماجی ارتقا اور تہذیبی بڑھوتری رک جاتی ہے۔
ہر سال 21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن تعلیمی، ثقافتی، علمی اور لسانی اعتبار سے بہت اہمیت کاحامل ہے۔ یونیسکو کی مرتب کردہ معلومات کے مطابق دنیا بھر میں بولی جانے والی تقریباً سات ہزار زبانوں میں سے کم از کم چالیس فیصد کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ اس سے دنیا میں لسانی تنوع کو خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ زبانیں خطرناک حد تک ختم ہو رہی ہیں۔ اور جب کوئی زبان معدوم ہو جاتی ہے تو وہ اپنے ساتھ ایک مکمل ثقافتی اور فکری ورثہ لے جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب عالمی سطح پر مادری زبانوں میں ابتدائی تعلیم کے فروغ پر زور دیا جا رہا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم نہ صرف بچوں کی سماجی مہارتوں کو بہتر کرتی ہے۔ بلکہ تعلیمی کارکردگی میں بہتری اور اسکول میں کامیابی کی کلید سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ لسانی مہارتوں پر ہونے والی تحقیق بچوں میں ایک سے زائد زبانوں کے سیکھنے کو ان کی علمی مہارتوں سے جوڑتی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مادری زبان پر مبنی تعلیم سیکھنے والوں کو معاشرے میں آزادانہ طور پر حصہ لینے کا اختیار دیتی ہے۔اس کے علاوہ یہ تبادلہ معلومات اور باہمی افہام و تفہیم میں سہولت کاری کے علاوہ باہمی انسانی اقدار اوراحترام کو فروغ دیتی ہے۔
مادری زبان کو برقرار رکھنے کا ایک اہم فائدہ ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مضبوط ثقافتی شناخت رکھنے والے بچے اسکول میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔یہ شناخت انہیں اپنی ثقافت سے جڑے رہنے سے حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً ثقافتی، لسانی و گروہی شناخت کو فروغ دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بچے اپنے خاندان کے بڑے بزرگوں سے ایسی کہانیاں اور واقعات سنتے ہیں جونہ صرف خاندانی تاریخ کا احاطہ کرتی ہیں بلکہ کسی قوم، علاقے اور نسل کے تاریخی پس منظر پر بھی روشنی ڈالتی ہیں۔
زیادہ تر ممالک میں بچوں کی اکثریت کو ان کی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔ جو ان کی مؤثر طریقے سے سیکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی چالیس فیصد آبادی کو اس زبان میں تعلیم حاصل نہیں ہے جو وہ بولتے یا سمجھتے ہیں۔ جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک مختلف لسانی اور ثقافتی گروہوں پر مشتمل ہیں۔ بدقسمتی سے ان ممالک میں سے چندایک کے تعلیمی نظام اس قسم کے لسانی اور ثقافتی پس منظر کو اہمیت دی گئی ہے۔ کیونکہ کثیرزبانوں پر مبنی تعلیمی نصاب اور سیکھنے کا عمل قومی سیاسی مقاصد اور اس سطح کے پروگراموں میں پیچیدگیاں لا سکتا ہے۔ ان سے بچنے کے لیے وہ قومی سطح کی ایک یا دو زبانوں کو ہی تعلیمی ابلاغ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے بچے سکول میں علم میں اضافے کی بجائے معلومات کو سمجھنے میں اپنا زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے اسکول کی زبان اس زبان سے مختلف ہوتی ہے جو انہوں نے زندگی کے ابتدائی سالوں میں اپنے گھر پر سیکھی ہوتی ہے۔
اسی لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ مقامی اور علاقائی زبانوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کرکے انہیں معلومات کی ترسیل کے ذریعہ کے طور پر اپنایا جائے۔علمی صلاحیت اور مخصوص مہارتوں کے حصول کے حوالے سے مادری زبانوں کی اہمیت پر ہونے والی عالمی تحقیق کی روشنی میں اس کی ادارہ جاتی اور حکومتی سطح پر ترویج کی جائے تاکہ ہمارا قومی، انسانی اور علمی ورثہ بھی محفوظ ہو اور نوجوانوں کو تعلیمی ترقی کی راہ میں حائل مشکلات کا بھی ازالہ ہو سکے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.