تحریر: جلال الدین مغل
مظفرآباد کے صحافیوں کی اس بیٹھک کا اہتمام لاہورکی ‘الف لیلی بک بس سوسائٹی’ نے کیا تھا اور مقصد آزاد کشمیر کے پرائمری سکولوں میں بچوں کو نصابی کتب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتب پڑھانے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے علاوہ حکومت کو پرائمری سکولوں میں باقاعدہ لائبریریاں قائم کرنے پر راضی کرنا تھا۔ میٹنگ میں شریک طارق نقاش بتاتے ہیں کہ ان کے بچے شہر کے ایک ایلیٹ سکول میں پڑھتے ہیں۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے سکول انتظامیہ کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بچوں کو نصابی کتب کے ساتھ ساتھ کتب بینی اور اخبار بینی کی ترغیب دیں اور اس کے لیے باقاعدہ وقت مختص کریں۔ سکول انتظامیہ اتفاق تو کرتی ہے مگر اہتمام سے گریزاں ہے۔
اپنا بچپن کا زمانہ یاد آ گیا۔ کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ بڑے بھائی ذوق مطالعہ بھی رکھتے تھے اورکتابوں کے کاروبار سے منسلک ہونے کے وجہ سے اخبارات، رسائل اور ادبی کتابوں تک رسائی بھی رہتی تھی۔ مگر پڑھنے کی آزادی کہیں میٹرک پاس کر لینے کے بعد ہی میسر آئی۔ اس سے قبل اگر کوئی غیر نصابی کتاب زیر مطالعہ پکڑی جاتی تو قیامت پبا ہو جاتی۔ گھر میں تو پھر ڈانٹ ڈپٹ پر اکتفا ہوتا، مگر سکول میں اس ‘تعلیمی بغاوت’ کی سزا مرغا بن کر کاٹنا پڑتی۔ مذہبی نوعیت کی کتابوں اور جہادی رسائل کو البتہ ایک حد تک استثنا تھا۔
پرانی بات چھوڑیں۔ میری بیٹی کی عمر6 سال ہے اور وہ پہلی کلاس میں ہے۔ اتوار کو گھر میں اسے اخبار کی سرخیاں پڑھنے پر لگا دیتا ہوں اور تلفظ درست کرنے میں معاونت کرتا ہوں۔ کہانیوں کی کچھ کتابیں امریکہ سے لایا تھا کچھ یہاں پاکستان سے وقتاً فوقتاً خریدیں۔ لاک ڈاون کے دوران سکول بند تھے تو اکثرہم دونوں مل کر یہ کتب پڑھا کرتے۔ فائدہ یہ ہوا کہ پہلی جماعت میں ہونے کے باوجود اس کا تلفظ، پڑھنے کی صلاحیت اپنے ہم جماعت بچوں سے کافی بہتر ہو گی اور اس کا اعتراف اس کے اساتذہ بھی کرتے ہیں۔ مگر اتفاق دیکھیے کہ پچھلے دنوں اس نے کچھ کتابیں اپنے سکول بیگ میں ڈالیں اور ساتھ لے گئی۔ شام کو اس کی ڈائری پر نوٹ لکھا ملا کہ بچی غیر متعلقہ کتابیں سکول لاتی ہے اس سے بچوں کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔ اگلے دن میں سکول چلا گیا اور انہیں بتایا کہ اس کی پڑھنے کی صلاحیت اور تلفظ انہی کتب کی وجہ سے بہتر ہوا ہے۔ پرنسپل کہنے لگے، ‘سر آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر ہم سکول میں نصابی کتابوں کے علاوہ دوسری کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔’
چند سال قبل ایک فیلو شپ کے لیے امریکہ جانا ہوا۔ فیلو شپ کا ایک لازمی حصہ مقامی شہریوں سے میل جول بھی تھا۔ اس سلسلے میں کئی مرتبہ مقامی چرچ اور کچھ سکولوں میں جانا ہوتا۔ چرچ کا ایک حصہ صرف بچوں کی کتابوں کے لیے مختص تھا جہاں والدین اپنے بچوں کو اتوار کے روز لا کر چھوڑتے اور وہ وہاں کتابیں پڑتے۔ ہر اتوارکوئی نا کوئی ان بچوں کو کہانیاں سنا رہا ہوتا یا کوئی بچہ با آواز بلند پڑھتا اور باقی اسے سنتے۔ سکول میں پانچ سے 10 سال کی عمر کے بچوں کو میں نے خود کئی مرتبہ کہانیاں سنائیں۔ ایک مرتبہ کلاس کی ٹیچر نے درخواست کی کہ اپنے بچپن میں سنی لوک کہانیوں کو انگریزی میں ترجمہ کر کے ان بچوں کو سنائیں۔ حیرت تب ہوئی جب اس نے بتایا کہ کلاس میں بچوں کو کوئی مخصوص کتاب پڑھنے پر مجبور کرنے کے بجائے صرف ان کی پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پر توجہ دی جاتی ہے اور کتاب کا انتخاب ان کی ذہنی سطح اور دلچسپی کے حساب سے انہیں خود کرنے دیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں البتہ حالات مختلف ہیں۔ سرکاری پرائمری سکولوں میں ٹیچر فاونڈیشن کے قاعدے کے علاوہ شاہد ہی کچھ پڑھایا جاتا ہو؛ الا ماشا اللہ۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بستہ الم غلم چیزوں سے بھر جاتا ہے، مگر اس مواد کا دسواں حصہ بھی طلبہ و طالبات مکمل طورپر پڑھ نہیں پاتے۔ طارق نقاش نے بتایا ان کی بیٹی کے سکول نے ایک کتاب لازمی قرار دے رکھی ہے۔ اس کی قیمت 1200 روپے ہے مگر پورے سال میں اس کے بمشکل دو صفحات ہی پڑھے ہیں۔
الف لیلی بک بس سوسائٹی اور اس جیسے دوسرے ادارے جس قدر بھی کوشش کر لیں نئی نسل اور کتاب کے درمیان حائل خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم کی ڈیجٹلائزیشن نے طالب علم اور کتاب کے درمیان رشتے کو کمزور کر دیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جن معاشروں کی ترجیحات میں کتاب اور مطالعہ شامل تھے ڈیجیٹل انقلاب ان کے مطالعے کی عادت کو متاثر نہیں کر سکا بلکہ اسے مزید پختہ اور آسان بنا دیا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہم سے دہائیوں پہلے شروع ہوا اور ہم سے کئی گنا زیادہ ہے مگر مجال کے بچوں یا بڑوں کا کتاب سے رشتہ ٹوٹا ہو۔ لائبریریاں تعلیمی اداروں کا لازمی حصہ تو ہیں ہی، شائد ہی کوئی چھوٹا بڑا شہر ایسا ملے جہاں پبلک لائبریری نہ ہو اور وہ آباد نہ ہو۔ ایرزونا کے سکاٹس ڈیل شہر میں گزرے ایک سال کا سب سے یادگار وقت وہاں کی پبلک لائبریری میں یا اس کے ارد گرد گزرا۔
اب اس معیار تک پہنچنا ہمارے لیے توفوری طور پر ممکن نہیں البتہ کہیں نہ کہیں سے ابتداء تو کرنا ہی ہو گی۔ مظفرآباد کی اس نشست کے شرکاء نے بڑی اچھی تجویز دی کے حکومت آزاد کشمیر کو تمام سرکاری پرائمری سکولوں میں لائبریری کا قیام لازمی قرار دینا چاہیے۔ ارادہ ہو تو یہ کوئی مشکل یا نا ممکن کام نہیں۔ ایک الماری اور چند سو کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری کے قیام کے لیے کوئی بہت بڑے مالی وسائل درکار نہیں ہوں گے البتہ ان لائبریریوں کے قیام کے اثرات کافی دور رس ہوں گے۔
اعداد و شمار کے مطابق آزاد کشمیر میں سرکاری پرائمری سکولوں کی کل تعداد 4303 ہے۔ ان سکولوں میں لائبریریوں کے قیام کے لیے درکار مالی وسائل حکومت اپنے پلے سے بھی فراہم کر سکتی ہے تاہم اگر حکومت کے لیے مشکل ہو تو مخیر حضرات اور اداروں کا تعاون بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور نہیں تو کم از کم پرائمری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین اور اس سکول سے منسلک کمیونٹی کے تعاون سے ہی ایک الماری پر مبنی لائبریری قائم ہو سکتی ہے جس پر شائد ایک لاکھ روپے سے بھی کم اخراجات اٹھیں۔ الف لیلی بکس بس سوسائٹی کی موبائل لائبریریاں ایک محدود وقت کے لیے ایک مخصوص علاقے کے سکولوں کی ضرورت پورا کر سکتی ہیں۔ لائبریریوں کو سکولوں کا لازمی حصہ اور مطالعے کی عادت کو تعلیم اور زندگی کا بنیادی حصہ بنانے کے لیے حکومت اور شہریوں کو مل جل کر کام کرنا ہو گا۔ اور یہیں سے تبدیلی کا اصل سفر شروع ہو گا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.