a brown misbaha on blue quran
a brown misbaha on blue quran
Photo by RODNAE Productions on Pexels.com

لباس و پہناوا بینش احمد

بینش احمد اٹک

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر جہاں دیگر اعزازات سے نوازا ہے انہی میں سے ایک نعمت زرق برق لباس کی بھی عطا کی ہے جبکہ دیگر مخلوقات جس لباس کے ساتھ دنیا میں آتی ہیں اسی کے ساتھ اس دنیا سے چلی بھی  جاتی ہیں۔

لباس انسان کی فطری ضرورت اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی  ہے- یہ نہ صرف انسان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ مختلف اقوام کے مذہبی نظریات کی ترجمانی بھی کرتا ہے ۔اس لحاظ سے ایک مسلمان کا لباس نہ صرف شرف انسانیت کا اظہار ہوتا ہے بلکہ نبؐی کا امتی ہونے کا اعلان بھی ہوتا ہے گویا لباس کا انتخاب کوئی معمولی چیز نہیں  ہے اور نہ ہی محض ایک کپڑا ہے کہ جسے انسان نے اٹھا کر پہن لیا۔ مسلمان کے لیئے لازم ہے کہ اس کے لباس وضع قطع میں ، اس کے اٹھنے بیٹے میں اس کے طریقے ،ادا غرض ہر چیز میں اسلامی رنگ نمایاں ہو۔

اس لئے مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ شریعت نے اس حوالے سے مردوں اور عورتوں کے لئے کیا حدود مقرر کی ہیں ۔ان حدود میں سے یہاں صرف عورت کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ عورت کا لباس کیسا ہونا چاہیے ؟

مسلمان عورت لباس پہنتے ہوۓ جن حدود کا خیال رکھے ان کا تعین اللہ تعالی نے قرآن وحدیث میں واضح طور پر رکھ دیا ہے۔

قرآن پاک کی سورۃ الاعراف میں اللہ رب العزت نے اس نعمت کا ذکر کرتے ہوۓ ارشاد فرمایا:

ترجمہ: اے اولاد آدم ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانپے اور تمھارے لئے زینت اور حفاظت کا ذریعہ بھی ہو۔”

یعنی لباس زینت و آرائش کا باعث اور موسمی اثرات سے حفاظت کا ذریعہ نیز ستر پوش ہونا چاہیے۔

اور پھر دوپٹے کا مقصد جو قرآن پاک کی سورۃ النور میں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے:

ترجمہ: اور وہ اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈال رکھیں ۔

 اس بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ انصار کی عورتوں پر (ایک اور روایت میں مہاجر عورتوں کا ذکر آتا ہے اللہ کی رحمت ہو جب یہ آیت نازل ہوئی تو انھوں نے اپنی چادر یں پھاڑ کر ان کے شمار ( دوپٹے) بنائے –

گویا خواتین دوپٹہ اوڑھنے کا اہتمام رکھیں اور اس سے اپنے سر اور سینے کو چھپائے رکھیں ۔ دوپٹہ ایسا بار یک نہ اوڑھیں جس سے سر کے بال نظر آ ئیں۔

مسلمان خواتین کے لباس کے اصول وضوابط کی مزید وضاحت مختلف احادیث سے بھی ہوتی ہے جس میں سے چند درج ذیل ہیں۔

ایک بار نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مصر کی بنا ہوا باریک کپڑا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے کچھ حصہ پھاڑ کر دحیہ کلبیؓ کو دیا اور فرمایا اس میں سے ایک حصہ پھاڑ کر تم اپنا کرتہ بنالو اور ایک حصہ اپنی بیوی کو دوپٹہ بنانے کے لئے دے دو ۔ مگر ان سے کہہ دینا کہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگالیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے نہ جھلکے-(ابوداؤد)

حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان عورتوں کو بھی عبرتناک انجام کی خبر دی ہے جو کپڑے پہن کر بھی ننگی نظر آئیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ خدا نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا سا رنگ ڈھنگ اختیار کریں اور ان عورتوں پر بھی لعنت فرمائی جو مردوں کا سا رنگ ڈھنگ اختیار کر یں۔ (بخاری)

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورتوں کا سا لباس پہنے اور عورت پر لعنت فرمائی جو مرد کا سا لباس پہنے۔ (ابوداؤد)

لعنت سے مراد اللہ کی رحمت سے دوری ہے ۔ سوچئے اس زندگی کا کیا فائدہ جو اللہ کی رحمت سے دور رہ کر گزاری جائے اور پھر کیا ایسی زندگی گزارنے کے بعد آخرت میں اللہ کی پکڑ سے بے خوف رہ سکتے ہیں؟

ان آیات اور احادیث کی روشنی میں اگر بغور جائزہ لیا جاۓ تو پتہ چلتا ہے کہ لباس کے بارے میں اسلام کی تعلیمات بڑی معتدل ہیں ۔ شریعت نے کسی مخصوص لباس کا تعین نہیں کیا اور نہ کسی ایسی خاص وضع اور تراش کی پابندی لگائی ہے کہ جس کی خلاف ورزی نا جائز اور گناہ ہو بلکہ حالات و موسم کے اختلافات لوگوں کے مزاج و عادات اور ان کے عرف و رواج کا بھی لحاظ رکھتے ہوۓ ایسے جامع اصول عطا فرماۓ ہیں کہ جن کی رعایت ہر حال میں ضروری ہے اور جو لباس اصول وحدود کے دائرہ میں ہوگا وہی شرعی لباس کہلاۓ گا ورنہ وہ خلاف شرع ہوگا۔

یہ سب جاننے بعد ہمیں اپنے لباس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے آیا وہ شریعت کے معیار پر پورا اترتا ہے؟ کیا ہمارا لباس ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی ثابت کرتا ہے؟

 کیا دنیا میں شریعت کی حدود کی پابندی میں شرم محسوس کرنے والوں کو آخرت میں نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی ؟

 ایک خاص بات بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اپنی اصلاح کریں بلکہ دوسروں کی توجہ بھی اس طرف دلائیں ۔

لباس کے معیار کو جانچنے میں ابن عمر کا یہ جواب بھی دل کو لگتا ہے کہ:

“ایک شخص نے ابن عمر سے دریافت کیا کہ میں کس قسم کے کپڑے پہنوں؟ تو آپؐ نے فرمایا جس کے پہننے سے نادان لوگ تمہیں بے وقعت خیال نہ کریں اور اہل دانش اس میں عیب نہ نکالیں ۔

لہذا ہمیں ایسا لباس پہننا چاہئے جو ہماری شریعت کے مطابق ہو- جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کی بے حیائی اور بےپردگی واضع نا ہو


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.