تحریر و تحقیق: سمیع اللہ عزیزمنہاس(آرکیٹکٹ) تصاویر: رئیس انقلابی، راجہ شاہد
خالق کائنات نے یہ خوبصورت اور اپنی قدرت کا شاہکار زمین و آسمان جہاں اپنی شان ربوبیت کے اظہار و پہچان کے لئے تخلیق فرمائے وہیں انہیں انسانوں کے استفادہ اور خدمت وبھلائی کے لئے بنایا۔
کوئی بھی قوم ہو اور کسی مذہب کی ماننے والے جتنی محنت و کوشش کریں گے دنیا مسخر ہو کر اس کے لئے مفید بن جاتی ہے۔ ایسی ہی عزم و ہمت کی مثال ہمیں ہندوستان پر برطانوی دور حکومت کی ملتی ہے۔
جب انہوں نے سونے کی چڑیا ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس کے طول وعرض میں پھیلے وسائل کے حصول کے لئے منظم اور بھرپور کوشش کی۔ وسائل سے استفادہ کے لئے جنوب میں ہندو پاک کے سمندروں سے لے کر شمال میں کے ٹو کے بلند و بالا پہاڑوں تک کا تفصیلی سروے کیا گیا۔
آج سے دو سو سے ڈھائی سو سال قبل تک یہ سروے ہندوستان کی تاریخ کا اہم کارنامہ تھا۔ موجودہ دور میں جدید سیٹلائیٹ سے جو سروے کیا گیا اس میں اور مینول سروے جو برطانیہ کے عہد میں ہوا صرف چند فٹ کا فرق ہے۔ برطانوی عہد کے عزم و ہمت کی اسی ہی نشانیوں میں سے ایک نشانی کشمیر اور بالخصوص وادی نیلم کی بلند ترین پہاڑوں کی وہ مینار نما چوٹیاں ہیں جنہیں آج ہم ’’لال بُتی‘‘ کہتے ہیں۔جن تک رسائی حاصل کر کے کشمیر اور اطراف کا سروے کیا گیا۔
سروے آف انڈیا
ڈیپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تحت انڈین انجینئرنگ سروسز کا آغاز کیا گیا۔ 1767میں سروے آف انڈیا کا قیام ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد سے کیا گیا۔ بعد ازاں10اپریل 1802میںGreat Trignometric Survey کا آغازبرطانوی سروئیر ’’ولیم لیمباٹ نے کیا۔
چنائی کے میدانوں سے شروع ہونے والا یہ سروے ہمالیہ کے دامن تک تقریبا50سال یعنی نصف صدی میں مکمل ہوا۔ اس سروے میں آدھا ٹن وزنی تھیوڈلائٹ کی سروے مشین استعمال کی گئی جو 12کلو میٹر کی بیس لائن کی پیمائش کے لئے 57دن لگاتی تھی۔
پانچ عشروں پر محیط یہ سروے 1852میں مکمل ہوا۔اسی دوران حساب دان ’’جیورج ایوریسٹ ‘‘ نے مائونٹ ایوریسٹ کی سطح سمندر سے بلندی بھی پامی جو29,002فٹ تھی۔
حیرت انگیز طور پر ڈیڈھ سو سال بعد جب جدید آلات اور سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کی مد دسے دنیا کے اس بلند ترین پہاڑ کی بلندی ماپی گئی تو صرف 35فٹ کا فرق آیا۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑ مائونٹ ایوریسٹ کی بلندی 29037فٹ ہے۔ 5عشروں پر مشتمل برصغیر (موجودہ بنگلہ دیش، برما،آسام، انڈیا اور پاکستان) کا یہ سروے یقینا ایک کارنامہ تھا۔اسی کی بنیاد پر اب صدیوں تک تعمیر و ترقی ہوتی رہے گی۔
لال بتی کا تعارف
لال بتی کیا ہے؟؟بنیادی طور پر پہاڑی سلسلوں میں یہ وہ بلند ترین مقامات یا مینار نما چوٹیاں ہیں جن پر چڑھ کر انگریزوں نے انیسویں صدی عیسوی میں کشمیر کا زمینی سروے کیا اور اس کی تفصیلی نقشہ جات مرتب کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ایک ایک گلی،پاس اور گائوں کی تفصیل جمع ہو گئی۔ وادی نیلم میں تین لا ل بتیاں موجود ہیں۔ جن میں دواریاں کے مضافاتی لال بتی،سرگن کی لال بتی اور کیل کی لال بتی شامل ہیں۔ ’’لا ل بتی‘‘ بنیادی طور پر سروے کے لئے لینڈ مارک کا کردار ادا کرتی تھی۔ ان بلند ترین قدرتی میناروں پر جو سطح سمندر سے کم از کم 15000فٹ بلند ی پر واقع تھے۔ عدسوں اور آلات کی مدد سے اطراف کے پہاڑوں کی بلندیاں اور تفصیل نقشہ جات مرتب کئے گئے۔
لال بتی میں لفظ’’بُتی‘‘ خاص طور پر قابل تشریح بھی ہے اور دلچسپ حقائق پر بھی مبتی ہے۔ ’’بتی‘‘ بنیادی طور پر ’’بُت‘‘ کی ہی ایک شکل ہے جس کے معنی ’’نشانی‘‘ کے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو بتوں کے پجاری جس بھی ’’بت‘‘ کی پوجا کرتے ہیں اسے بطور نشانی کے ہی پوجتے ہیں ان کے تصور میں یہ غائب دیوتا کی شبیہہ ہوتی ہے۔ ہندکو زبان میں ’’بتی‘‘ کا لفظ عام طور پر بمعنی نشانی استعمال ہوتا ہے۔ صدیوں سے مقامی لوگ چند پتھروں کو تلے اوپر رکھ کر مینار سا بناتے ہیں اور اسے ’’بتی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ کام اگرچہ وہ کھیل و تفریخ اور کسی بھی تفریخی مقام مثلا جھیلوں،مالیوں وغیرہ پر اپنی آمد کی نشانی کے طور پر بناتے ہیں لیکن اس کے پیچھے بھی لاشعوری طور پر صدیوں پرانے مذہبی و تاریخی حقائق پوشیدہ ہیں۔
دیوی ، دیوتاوں سے بُتی کی نسبت
جب کشمیر و تبت میں مذہب کے ماننے والے لوگ آباد تھے جو جھیلوں ان کے قدرتی حسن کی وجہ سے ’’دیوی‘‘ اور پہاڑوں کو ان کی ہیبت کی وجہ سے دیوتا مانتے تھے۔ مذہبی لحاظ سے یہ مختلف خوبصورت جھیلوں کے سامنے پتھروں کو تلے اوپر رکھ کر ان بتیوں اور جھیلوں کی پوجا کرتے تھے۔ اس مذہب کے ماننے والے آج بھی تبت میں موجودہ ہیں اور پتھروں کی بتیاں اسی طرح پوجا کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی یہ قدیم مذہبی رسم لاشعوری طور پر آج بھی کشمیر بالخصوص نیلم میں موجودہے۔ یہی نہیں بلکہ سرکاری محکمہ جات بھی ’’ڈیمارکیشن‘‘ کے لئے ’’بتی‘‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ جنگلات کی تقسیم و حدود کا تعین بتی کے ذریعے کیا جاتا ہے اگرچہ اس کی شکل مختلف ہوتی ہے۔
یقینا بتی کے بارہ میں دلچسپ حقائق جاننے کے بعد اب یہ سمجھنا آسان ہو گیا ہے کہ انگریزوں نے جن قدرتی مینار نما چوٹیوں کو سروے یا لینڈ مارک کے لئے استعمال کیا انہیں’’لال بتی‘‘ کیوں کہا جاتا ہے۔ لال رنگ دور سے نظروں کو متوجہ کر لیتا ہے۔ ان پہاڑی چوٹیوں کو جن پر کھڑے ہو کر اور آلات نصب کر کے انگریزوں نے دور و نزدیک کا سروے کیا غالب خیال یہ ہے کہ لال رنگ کو بطور نشانی استعمال کیا اسی وجہ سے یہ پہاڑی چوٹیاں لال بتی مشہور ہو گئیں۔ عموما بلند مالیوں پر جڑی بوٹیاں جب خزان قریب آتی ہے تو سوکھ کرسرخ ہو جاتی ہیں۔ دور سے وہ جگہ سرخی مائل نظر آتی ہے۔
رتی گلی
دواریاں کے مضافات میں گلی کو اسی وجہ سے ’’رتی گلی‘‘کہا جاتا ہے۔ مقامی زبان میں لال رنگ کو ’’رتا‘‘ کہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لال بتی کو ’’رتی بتی‘‘ کیوں نہیں کہا گیا۔جب یہ سروے ہوئے اس وقت ہندوستان سے آئے ہو ئے سروئیر نے اسے ہندی زبان میں لال کا لفظ استعمال کیا،بتی سرکاری سروے میں پہلے سے ہی مستعمل تھی اس لئے یہ مقاما ت ان کی زبانی ’لال بتی‘‘ مشہور ہوئے اور مقامی طور پر آج بھی یہ چوٹیاں ’لال بتی‘‘ کہلاتی ہیں۔
د واریاں کی لال بتی
آئیے اب آپ کو وادی نیلم میں مشہور دواریاں کی لال بتی کی جانب لے جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد سے شمال کی جانب کے فاصلہ پر ’’دواریاں‘‘ کا مشہور مقام واقع ہے۔ جہاں زمانے کے ولی کامل، عالم جلیل اور مجاہد اسلام حضرت مولانا محمد برکت اللہ جھاگوی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ہے۔ اس کے علاوہ دواریاں کی وجہ شہرت اس کے مضافات میں مشہور اوروادی نیلم کی سب سے بڑی جھیل ’’برکاتیہ جھیل رتی گلی‘‘ واقع ہے۔ دواریاں سے ایک لنک روڈ رتی گلی جاتا ہے جس پر سفر کر کے رتی گلی کے بیش کیمپ ’’ ڈھوک‘‘ تک پہنچ سکتے ہیں یہاں سے ہائیکنگ کر کے 15000فٹ بلند چوٹی ’’لال بتی‘‘ تک پہنچ سکتے ہیں۔
لال بتی کے بالکل ٹاپ پر آج بھی برطانوی عہد کے سروے کے آثار موجود ہیں نیچے سے اپر جاتے ہیں ۔ لال بتی ایک مینار کی شکل میں نظر آتی ہے جس کے ٹا پ پر چند فٹ پر پتھرں کو گول کاٹ کر سروے کے لئے بنیاد تیار کی گئی ہے جو کہ پروٹیکٹر کی طرح ہے اس گول دائرے کو مزید کواڈرنٹ quadrant میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس گول دائرے کے مرکز میں ایک سوراخ ہے جسے ایک بڑے عدسے کی تنصیب کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں شیشہ نصب کر کے سورج کی شعاعوں کے ذریعے سروے کیا جاتا تھا یا تیز لائیٹ کو دوسرے پہاڑوں تک منتقل کیا جا تا تھا۔ اس کی تیکنیکی تفصیل کچھ بھی ہو البتہ سروے کے بنیادی آثار انتہائی دلچسپ ہیں۔ یہ انتہائی دشوار گزرا مقام ہے آج سے ڈیدھ سو دو سو سال قبل یہاں تک رسائی کہیں زیادہ مشکل تھی۔ نہ جانے سروئیر اور ان کے امدادی عملہ نے کتنی یخ بستہ راتیں اس مقام پر گزاری ہوں گی۔ استاد محترم خواجہ عبدالمجید صاحب کے مطابق اس مقصد کے لئے نیچے بیس کیمپ پر ایک گیسٹ ہائوس بھی موجود تھا۔
دواریاں کا گورا قبرستان
جہاں دواریاں کے بستی ’’بیسیا ں‘‘ کے رہائشی چوکیدار ہوا کرتے تھے اسی طرح رتی گلی بیس کیمپ ٹینٹ ویلجز کے قریب ایک مقام آج بھی گور ا قبرستان کے نام سے مشہور ہے۔ مقامی لوگ انگریزوں کو گورا کہتے ہیں۔ اس سروے کے دوران فو ت ہونے والوں کو یہاں دفنایا گیا تھا۔ اسی لئے یہ مقام گورا قبرستان کے نا م سے مشہور ہو گیا۔
ایک مہم کی کہانی
اگست 2000ء میں میں داوئوانجینئرنگ یونیورسٹی اپنے ہم جماعت ساتھیوں کے ہمراہ سالک آباد سے رتی گلی آئے۔ جناب مفتی معین الدین صاحب اور جناب صاحبزادہ ظہور برکتی صاحب ہمارے راہبر تھے ہم سالک آباد کی بلند چوٹی پر چڑھنے کے بعد پہاڑوں کی چوٹیوں سے ہوتے ہوئے رتی گلی جھیل پر اترے تھے۔اترنے کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ جن پہاڑوں سے ہم ہو کر آئے رتی گلی جھیل ان سے تین ہزار فٹ نیچے تھی۔ لال بتی پہاڑ کے قریب سے ہوتے ہوئے ہم یہاں تک پہنچے تھے۔ اگرچہ یہ سفر انتہائی دشوار گزار معلوم ہوتا تھا لیکن یقین جانیئے نیلم ویلی کا باسی ہونے کے باوجود وہ نظارے میں آج تک نہیں بھول سکا۔
جب مفتی صاحب کے ہمت افزا الفاظ ’’بس مزید دس منٹ‘‘ کا سفر ہے کی گونج میں ایسا لگتا تھا ہم پہاڑوں پر نہیں بلکہ آسمان کی بلندیوں کو چھو کر چل رہے ہیں اور فضا ء میں ہمارے قدموں سے بہت نیچے بادل تیرے رہے ہیں۔جیسے چاند کی پریاں بادلوں کے اوپر چل رہی ہو۔ دور دور پھیلے پہاڑی سلسلے اور دواریاں کے مضافاتی گائوں میں دھوپ سے چمکتی جستی چادروں کی چھتیں اور ہزاروں فٹ نیچے بہتا رتی گلی نالہ اور راستے میں ڈھوکیں،سب کچھ آج بھی اسی طرح یا د ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ لوگ ہمیں یہ سمجھ رہے تھے یہ کوئی فوجی ہیں جو آسان راستہ چھوڑ کر ان پہاڑوں کی چوٹیوں پر سفر کر رہے ہیں اور کوئی سروے ہو رہا ہے
بہرحال بات سے بات نکل گئی۔ انگریزوں نے جب میدانی علاقوں کا سروے کیا تو انہیں لال بتیاں میسر نہ تھی اس لئے انہیں باقاعدہ مینار بنانے پڑے جو آج بھی موجود ہیں لیکن کشمیر میں انہیں قدرتی مینار مل گئے۔ ان کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے اس زمانے میں ٹنوں کے حساب سے سامان و آلات ایسے مقامات تک پہنچانا یہ خود ایک کارنامہ تھا۔یقینا اس میں انہیں مقامی لوگوں کو تعاون حاصل تھا لیکن اس عزم و ہمت کی داستان میں ہمارے لئے بہت کچھ سبق ہے جو آج بھی ان کے کئے گئے سروے پر ہی جی ٹی شیٹس مرتب کر رہے ہیں۔ دنیا عمل اور عزم و ہمت سے مسخر ہوتی ہے اور نیلم کی یہ لال بتیاں اسی عزم و ہمت کی نشانیاں ہیں۔دواریاں کے علاوہ شاردہ اور کیل میں بھی لال بتیاں دریافت ہوئی ہیں۔
لال بتی بمقابلہ شیشہ مالی
لال نیلم ویلی کی طرح ضلع جہلم ویلی میں بھی لال بتی ہی طرح ’’شیشہ مالی‘‘ مشہور ہے۔ یہ وہ مقام ہے جسے سروے کے لئے انگریز وں کے عہد میں استعمال کیا گیا تھا یہاں بھی سروے کے آثار موجود ہیں۔ سروے کے لئے استعمال ہونے والے شیشہ کی وجہ سے اسے شیشہ مالی کہتے ہیں۔ شیشہ مالی تک پہنچنے کے راستے مختلف اطراف سے ہیں۔ کافر کھن،لمنیاں، لیپہ اور کائی منجہ سے چار مختلف اطراف سے راستے شیشہ مالی تک جاتے ہیں۔ یہ مالی ان تمام علاقوں کے ٹاپ پر واقع ہے۔ مشہور ماہر فن تعمیر فاروق اعوان صاحب جو کہ ڈیزائن آفس مظفرآباد کے ڈی جی بھی رہ چکے ہیں کے مطابق شیشہ مالی پر سروے کے لیے شیشہ نصب کر کے ایوبیہ مری تک دن میں سورج اوررات میں مخصوص ٹارچ کی روشنی کو موڑا جاتا تھا جس سے مختلف پہاڑوں کی بلندی معلوم کی گئی۔ جب یہاں سروے کا آغاز ہوا تو قافلوں کی شکل میں مقامی لوگ سامان رسد و ضروری اشیاء وآلات شیشہ مالی تک پہنچانے پر مامور رہے۔ شیشہ مالی انتہائی خوبصورت تفریحی مقام بھی ہے۔
یقینا صدائے نیلم کی ٹیم اور بالخصوص محمد رئیس انقلابی اس حوالے سے قابل تحسین ہیں جو مسلسل تاریخی آثار کی دریافت اور تشہیر کے لئے بے سروسامانی کے عالم میں مصروف عمل ہیں۔ ضرورت اس امر کی کہ محکمہ آثار قدیمہ لال بتی کے تاریخی آثار کے گرد حفاظتی دیوار بنائے اور اس مقام تک رسائی کیلئے ٹریک کی نکاسی کی جائے۔ نیز اس مقام پر قدیم سروے کے لئے استعمال ہونے والے آلات اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے ماڈل بنا کر نصب کئے جائیں۔
لکھاری کا تعارف
سمیع اللہ عزیز منہاس پیشے کے اعتبار سے آرکیٹکٹ ہیں – انھوں نے اپنے پیشہ ورانہ علم کو وادی نیلم کی تاریخ و ثقافت کے مخفی گوشوں کو مناظر عام پر لا کر ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیاہے -وہ ایک محقق اور لکھاری ہیں – اور صداۓ نیلم اور دیگر پلیٹ فارم کے ذریعے تحقیقی اور علمی سرگرمیوں کی سرپرستی اور قیادت کر رہے ہیں -وہ تاریخ اور ثقافت کےموضوعات پر اخبارات اور جرائد میں لکھتے ہیں – ان کی ایک کتاب نیلم سےناگ تک شائع ہو چکی ہے
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.