کومل یاسین کوئٹہ
پچھلے دس سال سے زندگی ایک ہی ڈگر پر ڈگمگا رہی ہے ۔صبح مرغے کی بانگ کے ساتھ اٹھو تو سامنے تخت پوش پر بیٹھی ساس کے لوازمات سے صبح نو کا آفتاب دہکتا ہے۔ آگے بڑھو تو کچن میں دیورانی جیٹھانی برتنوں کی طرح آپس میں بج بج کر شور مچاتیں رہتیں ہیں ۔ان سے بچ کے نکلو تو اکلوتی نند جو کالج یونیورسٹی میں دس سال سے گردش کر رہی ہے پر مجال ہے تعلیم کا کوٹہ پورا ہو پائے۔ اسکے ناز نخروں کو سر آنکھوں پر رکھ کے آگے بڑھو تو سخت مزاج سسر منہ پھلائے اخبار میں گھسےگھر سے بے خبر حالات حاضرہ پر نظر رکھے نظر آتے ہیں۔ انکا چائے پانی کرو ۔پھر خاندان کے چشم وچراغوں کو نمٹا کے واپس حجرہ سکون میں پلٹو تو شوہر نامدار ایسے چیخ چلا رہے ہوتے جیسے میں ذمے دار ہوں انکی رات گئے تک سوشل ایپس پر ٹائم گزرانے کی وجہ سے آفس سے دیر ہو جانے کی۔ !
خیر سارا دن ان جھمیلوں میں پڑنے کے بعد سر درد بھی ماتھے کا سندور بنا رہتا ہے اور میں سوچتی رہتی ہوں سر درد ہے یا ر رویوں کا بوجھ ؟؟؟؟
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.