تحریر/   تصاویر:     شبیر احمد ڈار

  آشیانے کا بتائیں کیا پتا خانہ بدوش

      چار تنکے رکھ لیے جس شاخ پر گھر ہو گیا    (قمر جلالوی )

     خانہ بدوش فارسی زبان کا لفظ ہے جس سے مراد وہ شخص جس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہ ہو ۔ انگریزی ادب میں اس کے لیےویگرینٹ  کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ خانہ بدوشوں کی طرز زندگی عام افراد سے مختلف ہوتی اور نہ ہی ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ ہوتا . خانہ بدوش پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔

گزشتہ روز ضلع باغ آزادکشمیر کے خطہ منگ بجری میں موجود خانہ بدوشوں سے ان کی طرززندگی اور مسائل کے حوالے سے راقم نے استفسار کیا۔  تو ان کا جواب سن کر دل افسردہ ہوا۔ ان کے بچوں کی حالت زار نہایت ابتر ہے۔

پاؤں سلامت ہیں مگر پہننے کو جوتے نہیں ۔ بدن کےنصف حصے پر کپڑے ہیں مگرمیلے کچلےاور سونے کونرم بستر نہیں۔  بل کہ ۔ کانٹوں بھری زمین ہے۔ ان کی طرز زندگی اور مسائل انہی کی  زبانی ملاحظہ کریں۔

             خانہ بدوشوں سے جب ان کا تعلق پوچھا گیا کہاں سے ہیں تو ان کا کہنا تھا ” ہم خانہ بدوش دارالحکومت مظفرآباد سے آئے ہیں اور عباسی قوم سے تعلق ہے ۔

 جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر کیا سانحہ ہوا جس کے بعد آپ  اس طرح  مشکلات بھری زندگی بسر کر رہے ؟ تو ان کا کہنا تھا کہ 

زلزلے کے کچھ عرصے کے بعد سے ہم اسی ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں اور نہ ہی کسی نے مدد کی جس وجہ سے ایسی زندگی بسر کرنے پر آمادہ ہوئے ۔ ان کے ذریعہ روزگار کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ 

ہم غریب خانہ بدوش کچھ کباڑ کا کام کرتے کچھ  پھیری والے ہیں اور کچھ ڈرائیوری کر کے زندگی بسر کر رہے .خود کماتے ہیں خود کھاتے ہیں کوئی تعاون کرنے والانہیں کچھ نہ میسر ہوتو آرام کی نیند سو جاتے . “

          بدقسمتی سے خانہ بدوشوں کو ہمارے معاشرے میں اس اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا جب اس حوالے سے ان سے سوال کیا کہ  آپ سفر کرتے ہیں تو لوگوں کا آپ کے بارے میں رویہ کیا ہوتا ہے ؟ اور آپ لوگوں کے بارے میں کیا سوچھتے ہیں ؟ تو ان کا سادہ جواب ملاحظہ کریں کہ  ” کچھ لوگ ہمیں تنگ کرتے ہیں مگر کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہیں . ہمارا رویہ ہر شخص سے اچھا ہوتا ہر شخص کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے کیوں کہ ہم غریب اور بے گھر لوگ کسی سے بحث کریں گے اپنا ہی نقصان ہو گا.” ان کے  بچوں کی تعلیم و تربیت کےبارے میں  سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ” بچوں کو کیا تعلیم دیں کچھ رہنے کو جگہ ہو گی کوئی مستقل ٹھکانہ ہو گا تو تعلیم دیں گے . پیٹ بڑی مشکل سے بھرتا ہے تو تعلیم کیسے دیں گے ؟ دن کو جاتے ہیں کام پر اور جو لاتے ہیں اس سے ضروریات زندگی کی اشیاء لاتے ہیں . اور جب کچھ نہ ہو تو یہیں بیاباں علاقے میں پڑےہیں کوئی پرسان حال نہیں. کوئی فریاد سننےوالا نہیں . لوگوں کو پھر بھی 12000 حکومت دےرہی ہمیں اس سے بھی محروم رکھا ہے .” جب ان سے ان کے بچوں کے خیالات کےبارے میں سوال کیاکہ کیا آپ کے بچے نہیں چاہتے ہم بھی دوسرے بچوں کی طرح زندگی بسر کریں کھیلیں اور تعلیم بھی حاصل کریں تو ان کا درد بھرا جواب تھا کہ”  بچے بھی دیکھیں چھوٹے چھوٹے ہیں اسی طرح گھوم رہے ہیں اور ہمیں اکثر کہتے رہتے  کہ پاپا!  ہمیں اسکول بھیجواور مدرسے بھیجو . ہم بھی آخر مسلمان ہیں نبیﷺ کا کلمہ پڑھنے والے ہیں. کوئی ہندو نہیں اور نہ ہی ہم بھارت سے نہیں  آئے ہیں یہیں کہ باشندے ہیں مگر ہمارے پاس وسائل نہیں .تین سو سے چار سو روپے کماتے بڑی مشکل سے زندگی بسر کرتے . “

           جب ان کی شادی بیاہ کی رسومات کے حوالے سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا “کہ شادی بیاہ ہماری سادگی کے ساتھ ہوتی ہے . ہم غریب لوگ ہیں اپنے ہی قبیلے میں شادی کرتے باہر کسی سے رشتہ داری نہیں . ہمارا  جہیز وغیرہ کا کچھ نہیں ہوتا ہم انگوٹھی پہنا دیتے اور نکاح کر لیتے ہیں . ” خانہ بدوش ہر جگہ اکھٹے رہتے اسی لیے جب ان سے میں نے سوال کیا کہ  آپ خانہ بدوش اتنی بڑی تعداد میں کیسے منظم ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ”  یہ ہمارا قبیلہ ہے ہم اپنے قبیلے میں میں 300 سے 400 گھر رکھتے ہیں کچھ گڑھی دوپٹہ ، کچھ مانسہرہ ، کچھ ایبٹ آباد ، کچھ کوٹلی اور کچھ کہیں پر موجود ہیں . دس سے پندرہ گھر ایک قبیلے میں ہیں یہاں اور سب کا تعلق ایک ہی علاقے سے ہے کوئی باہر سے متاثرین آئیں ہم انہیں بھی خوش آمدید کہتے ہیں وہ بھی ہمارے بھائی ہیں ہم سے جو ہوتا مدد کرتے”  .        

       خانہ بدوش خواتین کے بارے میں جب میں نے سوال کیا کہ  آپ کی خواتین کس پیشہ میں مہارت رکھتی ہیں تو کہتے ” ہماری خواتین محنتی ہیں اور گھروں میں کام کاج کرتی ہیں جس سے گھر کا نظام چل رہا ہوتا . “ان کی طرز زندگی اور مسائل کے حوالے سے سوال کیا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گے اور فورا مجھے اپنی رہائش گاہ میں لے گےاور کہا “ہم غریب خانہ بدوش ہیں ہماری رہائش گاہ دیکھیں ٹینٹ پھٹا ہوا ہے اور یہ برتن دیکھیں کیسے بکھرے پڑے ہیں . یہاں بکریاں نہیں رہتی جہاں ہم انسان  زندگی بسر کر رہے .یہاں جانور بھی رہنا پسند نہیں کریں گے جہاں ہم رہتے . سونے کو کوئی خاص بستر وغیرہ بھی نہیں ہے . بارش لگی تو کدھر جائیں گے . لوگوں کی دیواریں ہیں ہماری دیواریں کدھر ہیں . لوگوں کے گھروں میں دروازے ہیں ہمارے دروازے کدھر ہیں . لوگ دستک دےکر آتے لیکن یہاں دستک کی جگہ بھی نہیں ہماری عورتیں ان پھٹے ٹینٹ میں بغیر پردے کے بیٹھی ہوتی تو نامحرم کی نگاہ ان پر پڑ جاتی . پردہ ہے ہی نہیں. یہاں کوئی حملہ کر دے تو ہم کیا کریں گے کیسے اپنا تحفظ کریں گے کوئی جنگلی جانور ہی آ جائے تو کیا کریں گے . بس اللہ کے سوا کوئی ہمارا محافظ نہیں . “

     ان سے جب پوچھا آپ ایک جگہ پر کتنا عرصہ قیام کرتے ہیں ؟ تو کہتے ہیں ” بیس دن یا ایک ماہ ایک جگہ پر قیام کرتے . پہلے سے کسی جگہ کا انتخاب نہیں کیا ہوتا جہاں سرسبز زمیں خالی ہوتی وہیں پر کچھ عرصہ قیام کرتے . سرد علاقے کو ترجیح دیتے ہیں .”  آخری سوال ان سے تھا  آپ حکومت سے کیا اپیل کرتے ہیں ؟ تو جواب ملاکہ ”  اس سے پہلے بھی آواز اٹھائی ہے ہماری کوئی نہیں سنتا . جب الیکشن آتے ہم ووٹ دیتے مگر کچھ نہیں ملتا . ہر سال مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیتے مگر کسی نے اب تک مدد نہ کی . زلزلے کےبعد سے اب تک یوں ہی دربدر ہیں . حکومت سے یہی التجا ہے کہ ہماری مدد کریں خانہ بدوشوں کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے . انہیں بھی کہیں مخصوص ٹھکانہ دیں . ” 

    یہ تھے کچھ سوالات جو ان سے پوچھے اور جواب بھی آپ نے یقینا ملاحظہ کیے ہیں . آپ سے یہی گزارش ہے ان کی آواز بنیں ان کی آواز احکام بالا تک پہنچائیں اور ان کو ہو سکے تو عید کی خوشیوں میں شامل کریں ان کے بچوں کو کپڑے اور کتابیں دیں . کیوں کہ یہ کسی اور کی نہیں ہماری اپنی ریاست ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں  ……


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content