پہاڑوں کے سینے پر سر سبز روئیدگی حیات بن کر سانس لے رہی تھی۔ڈھلانوں پر دھان کے کھیت کچے چاول کی خوشبو سے مہک رہے تھے۔مونسون ہوائیں سیاہ مدھ بھرے بادلوں کے بوجھ سے وادیوں میں دھیرے دھیرے اتر رہی تھیں،پھیل رہی تھیں۔ ہواؤں میں بارش کی بوندوں کی سگندھ تھی،خنکی تھی۔۔۔۔وادیوں میں گونجتی،روح کو بالیدہ کرتی خاموشیاں تھیں۔۔۔۔۔۔من تھا کہ میور بنا کوک رہا تھا۔۔۔ناچ رہا تھا۔۔۔۔جھوم رہا تھا۔۔۔۔
فوٹو گرافر نے ہر زاوئیے سے فطرت کے بدمست،الہڑ حسن کو قید کر لیا۔۔۔۔۔اور سوچا،
“کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس جنت ارضی میں بستے ہیں،پوری زندگی گزارتے ہیں اور پھر انھیں منظروں کے بیچ دفن ہو جاتے ہیں۔”
دھان کے کھیت میں جھکے بوڑھے کسان نے سارے دن کی مشقت کے بعد بمشکل کمر سیدھی کی۔کھیت سے نکل کر ایک کچی منڈیر پر بیٹھ کر بیڑی سلگائی اور چادر کے کونے سے پسینہ پونچھنے لگا۔
فوٹوگرافر نے کیمرے کی آنکھ سے جھٹ یہ منظر بھی محفوظ کر لیا اور خوشی سے کیمرے کو تھپکا۔۔۔
پھر نجانے اسے کیا خیال آیا کہ کھیت کی منڈیر پر بیٹھے بوڑھے کسان سے مخاطب ہو کر اپنے بدیسی لہجے میں پوچھا،
“بزرگو۔۔کب سے رہتے ہو اس جنت میں؟”
بوڑھے کسان نے پہلے تو اس اچانک سوال پر حیرت سے نوجوان فوٹو گرافر کو دیکھا اور پھر تھکن سے بوجھل آواز میں جواب دیا۔
” پینسٹھ سال ہوگئے پتر ادھر رہتے ہوئے۔۔۔۔”
آپ بڑے خوش نصیب ہو بزرگو۔۔۔بڑی پیاری جگہ رہتے ہو۔صبح آنکھ کھول کر یہ منظر دیکھتے ہو گے۔۔۔۔اور سونے سے پہلے بھی یہی حسن آنکھوں میں بسا رہتا ہوگا.”
بوڑھا کسان پہلے تو حیرت سے منہ اور آنکھیں کھولے فوٹو گرافر کو دیکھتا رہا۔۔۔۔پھر اسکی بات سمجھ کر کچھ دیر سر جھکائے بیٹھا رہا اور پھر آہستہ آہستہ بولا۔
“پتر۔۔۔میرے باپ دادے،سگڑ دادے سب کسان تھے یا مزدور تھے۔۔۔۔ساری زندگی محنت مزدوری کرتے گزر گئی۔۔۔۔کبھی سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا ہی نہیں۔۔۔۔اور اگر دیکھا بھی تو روٹی کی فکر سے کچھ نظر ہی نہیں آیا۔۔۔۔
پتر۔۔۔۔ہماری آنکھیں ماتھے پہ نہیں ہوتیں۔۔۔۔ہاتھوں پہ لگی ہوتی ہیں۔۔یا۔۔۔زمین میں گڑھی ہوتی ہیں۔۔۔جہاں سے روٹی ملتی ہے۔۔۔۔۔جس جنت میں ہم رہتے ہیں۔۔۔وہ ہماری نہیں۔۔۔
تم پیسے والوں کی جنت ہے پتر۔۔۔ہم تمہاری جنت میں سر جھکا کر جیتے ہیں اور سر جھکائے جھکائے مر جاتے ہیں۔۔۔.”
فوٹو گرافر نے قدرے ناگواری سے
so what
کے انداز میں کندھے اچکائے اور سیٹی بچاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔جنت کی کچھ اور تصویریں کھینچنے۔۔۔۔۔۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.