ہمیں کیوں تخلیق کیا گیا ہے؟ تحریر: اورنگزیب یوسف

You are currently viewing ہمیں کیوں تخلیق کیا گیا ہے؟ تحریر: اورنگزیب یوسف

ہمیں کیوں تخلیق کیا گیا ہے؟ تحریر: اورنگزیب یوسف

جنت کی زندگی ، تصنیف اورنگزیب یوسف

ہمیں کیوں تخلیق کیا گیا ہے؟ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟سب تعریفیں اسی عظیم الشان ذات کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا اور اسے رنگ برنگي مخلوق سے سجایا۔

دن کی روشنی اور اس میں قسم قسم کی زندگي کی رعنائیاں، پھولوں کے رنگ و بناوٹ اور خوشبوئیں، سبزہ زار،باغات اور لہلہاتے کھیت، گیت گاتے پرندے، طرح طرح کےجانور،بل کھاتی ندیاں،آبشاریں اورجھرنوں بہتا پانی، مرغزار وں اور برف زاروں کے نظارے اور تتلیاں، ہواؤں کی گردش، گھٹائیں، گرجتےبادل ، کڑکتی بجلیاں، بارشیں، دریا ، سمندر، پہاڑ، درخت، رنگارنگ مخلوق اور نجانے کیا کچھ۔ رات کی تاریکی کا پردہ اور سکون ، قندیلوں کے مانندخوبصورت ٹمٹماتےستارے اور ان کی راہ دکھلاتی حسین روشنی اور دل میں طلاطم برپا کرتی ٹھنڈی مسحور کن چاندنی۔

یہ ساری چیزیں بامقصد اور کسی نہ کسی طرح انسان کی خدمت میں لگی ہوئيں اور اس کو راحت پہنچا رہیں ہیں۔یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر اگر کھلے دل و دماغ سے غور کیا جائے تو یہ بلاشرکت غیرے بس اپنے خالق و مالک ہی کےکامل علم وحکمت ،بےمثال عظمت و قدرت اوربےنیاز وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں۔دیکھیے کہ اللہ تبارک تعالی کی تخلیق کردہ کائنات اور اس کی ہرہر چیزبامعنی ،بامقصد اورخدا کے متعین کردہ اپنےکام میں مصروف نظر آتی ہے۔ اور یہ تخلیق فضول ہرگز نہیں جیسا کہ اللہ رب العالمین نے خود فرمایا ہے:سورة ص ( 38 )وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ {27}ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں کردیاہے۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے، اور ایسےکافروں کے لیے بر بادی ہے جہنم کی آگ سے۔ انہی چیزوں کی پیدائش میں بے شمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جوان میں غور و فکر کرتے ہیں اور وہ یہ پکار اٹھتے ہیں کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ پروردگاریہ سب کچھ تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔

پس اے رب!ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے:سورة آل عمران ( 3 )إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لِّأُوْلِي الألْبَابِ {190} الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ {191}

زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوشمند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اُٹھتے، بیٹھتے، اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کویاد کرتے ہیں اورآسمان و زمین کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں۔(وہ بے اختیا ر بول اُٹھتے ہیں)

“پروردگاریہ سب کچھ تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تُو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے رب!ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔”اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب اللہ کی پیدا کردہ یہ اتنی ساری چیزیں انسان کے فائدے کے کام اور اس کی خدمت میں لگي ہوئی ہیں، اورجہاں سب کچھ ہی بامقصد ہے تو آخر اس عظیم مخلوق یعنی حضرت انسان کی تخلیق بے مقصد کیسے ہو سکتی ہے؟آخر اس اشرف المخلوقات کے پیدا کیے جانے کا کیا مقصد ہے ؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ہم آج تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

اور یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جو اگر ہم لوگوں سے پوچھیں تو کوئي بڑا خوش نصیب ہی ہو گا جس نے اپنی زندگي کا شعوری مقصد وہ رکھا ہو جس کے لیے حقیقتا ہمارے رب نے ہمیں پیدا کیا ہے۔دیکھیے کہ انسان بھی اپنی سمجھ کے مطابق بامعنی کام ہی کرتا ہے اور بامقصد چیز ہی بناتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو چیز جب تک اپنا مقصد پورا کرے کارآمدہے اور جب اپنی تخلیق کا مقصد پورا نہ کرے تو بے کار۔ یہ باتیں ہی سمجھنے کےلیے ہمیں اللہ نے سماعت و بصارت کی قوتیں ، عقل و فہم اور سوچنے سمجھنے والے دل عطا فرمائے ہیں۔

اب اپنی تخلیق پرغور کیجیے تو عقل سلیم یہ چند باتیں ضرور پوچھے گي جن کے جواب ہم ذیل میں قرآن سے تلاش کر رہے ہیں۔• پہلی بات: مقصد وجودہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟ ہمیں خدا نے یہ زندگي کیوں دی ہےاورہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں زندگي کا کیا مقصد رکھنا چاہیے اورآیاہم اپنی تخلیق کا مقصد پورا کر رہے ہیں یا نہیں؟ آئیے قرآن کھولتے ہیں:جواب ملاحظہ ہو:

سورة الذاريات (51 )وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ {56} مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ {57} إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ {58}

میں نے جِن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہںه کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اورنہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ۔ اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست ۔ تو قرآن سے جواب یہ ملا کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت ہی ہمارامقصدتخلیق ہے۔ اس کے سوا ہمیں کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔یعنی جس نے پیدا کیا ہے اور جو رزق دیتا اور پرورش کرتاہے اسی کی عبادت وپرستش اور اطاعت و بندگی کی جائے۔قرآن حکیم میں اللہ کی تخلیق و نشانیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد کتنے ہی مقامات پر یہ کہا گیا ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ کہ یہ اور یہ کام کرنے والا ہی تمہارا رب ہے اور وہی سچا معبود ہے۔ اللہ کے خالق اور رازق ہونے کو توحید کی دلیل کے طور پر قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:

سورة الروم ( 30 )اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَلِكُم مِّن شَيْءٍ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ {40}

اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟

پاک ہے وہ اور بہت بالاوبرتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔تو کسی دوسرے کو شریک کیے بغیر اپنے خالق ، مالک، رب ،رازق اور حقیقی معبود کی بندگي ہی ہماری پیدا کیے جانے کا مقصد ہے۔اور ہمارےانسان ہونے کے مقام کی حقیقی عزت ورفعت اور شرف اسی میں ہے کہ ہم بس اپنے رب ہی کی بندگی کریں۔

ورنہ ہمارا جسمانی وجود توایک وقت مقرر تک زندہ رہے گا لیکن ہمارا حقیقی وجود اپنا مقصد پورا نہ کرنے کی بنا پر بے کار ہوجائے گا اورجسمانی موت سے بہت پہلے ہی جیتے جی مر جائے گا

۔اس طرح اللہ کی نشانیوں پر توجہ نہ کر کے توحید سے غافل رہنے اور اپنے رب کی بندگی کایہ مقصد پورا نہ کرنے پر ہماری زندگي حقیقی علم کی روشنی سے محروم ہو کراندھیروں میں بھٹکتی ایسی حیوانی زندگی رہ جائے گي کہ جس کا مقصدپیٹ کے پیچھے ہی دوڑتے رہنا، کھانا پینا، افزائش نسل اور آسائشوں کی تلاش کے علاوہ اور کچھ نہ رہ جائےگا،

دیکھیے کہ ایسے غافل لوگوں کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے: سورة الأعراف ( 7 )۔۔۔لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَـئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ {179}ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔

وہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جوغافل ہیں۔یعنی اللہ سے غافل لوگوں کا دیکھنا، سننا اور سوچنا بالکل حیوانوں کے جیسا ہے انہیں جانوروں کی طرح وہ سب کچھ سنائی دیتا،نظر آتا اور سجھائی دیتاہے جس کاتعلق لذت کام ودہن سے ہو لیکن ایک خدا ہی کی نشانیوں کی طرف انہیں کوئي توجہ نہیں ہوتی۔چیزوں کے ظاہری پہلو پر ہی سوچتے ہیں مگرجس حقیقت کی طرف یہ چیزیں نشاندہی کرتی ہیں اس طرف ان لوگوں کا کوئي خیال نہیں جاتا۔

جانور کے لیے تو ایسا دیکھنا ، سننا اور سوچنا قابل مذمت نہیں ہے کیونکہ وہ تو اسی کا مکلف ہے لیکن صاحب عقل و شعور انسان جب حیوانوں کی طرح کا رویہ اختیار کرتا ہےتو وہ حیوانوں سے بھی بدتر ہے کیونکہ اسے تو یہ صلاحیتیں اسی لیے دی گئیں اورپیدا ہی اس لیے کیا گیا کہ آفاق و انفس کی نشانیوں میں غور و فکر کر کےوہ اپنے خالق و مالک کو پہچان سکے گا، اس کے بھیجے پیغامات سے نصیحت حاصل کرے گااور اسی کی بندگی کرے گا۔توہم نے جاناکہ اللہ کی بندگی و اطاعت کیے بغیر انسانی زندگی بے کار و بے مقصد ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ بندگی کا کیا مطلب ہے۔اصل میں( لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ) اللہ سے بندگي کا عہد ہی ہے اوربندگي کا پورا مفہوم ہماری پوری زندگی اور اس کے ہر ہر عمل اور ہر ہر گوشے و پہلو پر محیط ہے۔اللہ ہی کے لیے نماز، روزہ، زکواۃ، حج بھی بندگی کے راستے ہیں، اللہ ہی سے امید اور خوف رکھنا بھی بندگی ہے، اللہ ہی سےدعامانگنا، اللہ کے احکامات بجا لانا اوراللہ ہی کےدیے نظام زندگي کی پیروی کرنا بھی اللہ کی بندگی ہے۔

معاملہ اہم ہے اس لیے اب ذرا تفصیل سے غور کرتے ہیں۔یوں سمجھ لیجیے کہ کسی نمازکے وقت جو زندگی کے سانس اللہ نے بخشے ہیں وہ اسی لیے ہیں کہ اللہ کے سامنے جھکا جائے۔اور ایک نماز سے دوسری نماز تک زندگي کی چند گھڑیاں عطا ہونے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگلی نماز پر اللہ کے سامنے سجدہء شکر بجا لایا جائے اور اسی سے مدد واستعانت کے لیے ہاتھ پھیلایا جائے۔رمضان مبارک اگر اللہ زندگی میں نصیب فرماتا ہے تو زندگی کے اس مہینے میں مومن کی زندگی کا ایک بڑامقصدنماز و روزہ کا اہتمام ہو گا۔

اللہ نے اگر مال دیا ہے تو جان لیجیے کہ اسی لیے عطا کیا ہے اس سے زکواۃ اور صدقات دیے جائیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ صاحب استطاعت ہیں تو یہ استطاعت اللہ نے حج ہی کے لیے دی ہے۔خدا نے طاقت دی ہے، وقت دیا ہے، صلاحیت دی ہے، مال دیا ہے، اقتدار دیا ہے،علم دیا ہے غرض جو بھی نعمت عطا کی ہے تو اسی لیے کہ خدا ہی کی بخشی نعمت کو کسی طرح اللہ کے کسی کام میں کھپا دیا جائے۔ملازمت، تجارت یا روزی کمانے کے لیے جو بھی حلال کام کرتے ہیں اس میں اللہ کے احکامات کے مطابق اسی کوراضی کرنے کے لیے دیانت داری، حلال کھانا،خیانت نہ کرنا اورخلق خدا پرظلم نہ کرنا ہی اللہ کی بندگی ہے۔صاحب اقتدار و حیثیت ہیں تو نماز، روزہ، زکواۃ کے ساتھ ساتھ اپنے فیصلوں کو اللہ کے فیصلوں کے ماتحت کرنا بھی اللہ کی اطاعت و بندگی ہے۔انسانوں کےعقائد و معاملات کی اصلاح ہو،عبادات ہوں، توحید کا ابلاغ ہو، قرآن و سنت کی دعوت ہو، جہاد و قتال ہو، اللہ کے احکامات، قوانین اور فیصلوں کی اطاعت ونفاذہو یا حکومت الہیہ کے قیام کی جدوجہد ہو یہ سب اللہ ہی کی بندگی کی صورتیں ہے۔یعنی عقیدہ و عمل، انفرادی و اجتماعی زندگی، معاشی و معاشرتی،معاملاتی اور حکومتی زندگي، غرض حیات انسانی کا کوئی ایک بھی گوشہ نہیں ہے جواس عہد کے بندھن سے آزاد ہو اور جہاں ہم اللہ کی بندگی و اطاعت کر کے اپنی پیدائش کا مقصد پورا نہ کر سکتے ہوں۔اور کلمہء طیبہ کی صورت میں کیا گیا یہ عہد اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جب کہ زندگی کے تمام ہی معاملات میں اللہ کی بندگی کی جائے۔

ایسا نہ ہو کہ مسجد میں تو اللہ ہی کی بندگي ہو اور کاروبار میں جھوٹ،دھوکہ دہی اور ظلم کی بندگي۔ روزوں کا اہتمام تو بہت اچھا ہو لیکن جیب خیانت اورسود کی بندی ہو،یا پھر ایک طرف تو خلق خدا کی گردن پر ظلم کی چھری رکھ کر ان کا خون نچوڑا جا رہا ہواور دوسری طرف زکواۃ اور صدقات بھی دیے جا رہے ہوں۔یا یہ اعلان کیا جا رہا ہو کہ اسلام تو انفرادی معاملہ ہے ہم نماز روزہ تو کرتے ہیں لیکن عدالتی فیصلوں اور حکومتی قانون کےساتھ اللہ کی بندگي کا کیا لینا دینا؟اللہ کی بندگي و عبادت اگر پوری طرح کرنی ہے اور اپنا مقصد پیدائش پورا کرنا ہے اورزندگي کی اس آزمائش کی بھٹی سے کامیابی سے نکلنا ہے تو اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا پڑے گا۔ادخلو فی السلم کافۃ۔یعنی اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے پہلو اور ہر گوشے کو اللہ ہی کی بندگی کے ماتحت کرنا، اپنے سارے کاموں میں بس اللہ ہی کی خوشنودی و رضا کومقصود رکھنا اوربندگی کے طریقوں کےلیے اللہ کے بہترین بندے اوررسول محسن انسانیتﷺ کی اطاعت و پیروی کرنا۔ جو انسان بھی اس کرہء ارض پرکبھی بسے ہیں،آج موجود ہیں، یا آئندہ پیدا کیے جائیں گے ان کے پیدا کیے جانے کا مقصد بخدا اس کےسوا اور کچھ بھی نہیں کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی بندگي کریں

اور اسی مقصد کے پورا کرنے میں دائمی راحتوں کا حصول اور سچی کامیابیاں ہیں ورنہ انتہائي خوفناک انجام والی ناکامیاں۔• دوسری بات: دنیا کی زندگی محض آزمائش ہےاس ضمن میں دوسری بات یہ کہ روئے زمین پر زندگی کا یہ ہنگامہ ، یہ مال و اولاد، یہ رونقیں اور چکاچوند، اچھے برے حالات، یہ سب ایک ابتلاءو آزمائش کے سامان کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔اورہماری پیدائش کا ایک مقصد یہ امتحان لینا ہے کہ کون اللہ کی دی ہوئی سماعت و بصارت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اللہ اور اس کے رسولوں علیما السلام پر ایمان لاتا ہے اور اعمال صالحہ کرتا ہے اوراس طرح اپنے آپ کو اشرف المخلوقات اوراللہ کا حقیقی نائب ثابت کرتا ہے۔کچھ آیات ملاحظہ ہوں:

سورة الملك ( 67 )الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ {2}

جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزماکر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والاہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔

سورة الإنسان (76 )إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا {2}

إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا {3} إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَا وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا {4}

ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔

کفر کرنے والوں کے لیے ہم نے زنجیریں اور طوق او ر بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔سورة الكهف ( 18 )إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا {7} وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا {8}واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایاہے تا کہ اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

آخر کار اِس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔سورة الأنبياء ( 21 )كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ {35}ہر جاندار کو مَوت کامزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔سورة الأنفال ( 8 )وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ {28}

اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کےلیے بہت کچھ ہے۔• اس آزمائش میں کامیابی کا راستہاورزندگی کی اس کڑی آزمائش میں پورا اترنے کا بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اللہ کے بھیجے انبیاء اوررسولوں علیھم السلام کی اتباع وپیروی۔

یہی وہ بات ہے جس پر ہماری کامیابی یا ناکامی کا انحصار ہے اوریہ بات انسان کو زمین پر بھیجتے وقت ہی اس امتحان میں کامیابی کے ایک رہنما اصول کے طور پر ابتدا ہی میں بتلا دی گئی تھی:سورة طه ( 20 )قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى {123} وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى {124} قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا {125} قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى {126} فرمایا “تم دونوں (فریق، یعنی انسان اورشیطان) یہاں سے اتر جاؤ۔

تم ایک دُوسرے کے دشمن رہو گے۔اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مُبتلا ہو گا۔اور جو میرے “ذِکر”(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے”_____وہ کہے گا “پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا”؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا ” ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو ، جبکہ وہ تیرے پاس آئیں تھی، تُو نے بھُلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھُلایا جا رہا ہے”اللہ کے بھیجے سارے انبیاء اوررسولوں علیھم السلام نے ایک ہی دین وطریقہ زندگی اسلام یعنی ایک ہی اللہ کی بندگي کی طرف دعوت دی اور اس دین کی بنیاد یعنی توحید و رسالت اور آخرت کی تعلیمات میں کبھی کوئي فرق نہ آیا۔

سارے ہی انبیاء اوررسولوں علیھم السلام نے اپنی دعوت کا آغاز اسلام کی بنیاد اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت و سچ یعنی لا الہ الا اللہ سے کیا اور ان سب کے پیروکار توحید و رسالت و آخرت پر ایما ن رکھنے والے مسلم ہی تھے۔ اس توحید کے جواب میں ہر دور میں باطل اورشرک کی صورتیں مختلف رہیں لیکن کلمہء توحید ہمیشہ لا الہ الا اللہ ہی رہا۔یوں اللہ کا جاری کردہ پسندیدہ دین ہمیشہ سے اسلام ہی رہا اور بس یہی کامیابی کی زندگی گزارنے کا اللہ کے ہاں قابل قبول راستہ ٹھہرا:سورة آل عمران ( 3 ) إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۔۔۔{19}اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔

اِس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقےاُن لوگوں نے اختیار کیے جنہیں کتاب دی گئي تھی، اُن کے اِس طرزِعمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ اُنہوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا۔سورة آل عمران ( 3 ) وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ {85}اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہےاُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔اور قرآن عظیم الشان میں کسی کے ہدایت یافتہ ہونے کی ایک نشانی بھی یہی بتلائی گئي کہ فَمَن يُرِدِ اللّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإِسْلاَمِ پس جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ توسارے انبیاءعلیہم السلام اور ان کے پیروکار اصل میں اسلام ہی کے پیرو کار تھے اور اسی راستے پر چل کر ان کو کامیابی ملی اورنبی رحمت ﷺکی بعثت کے بعد قیامت تک آنے والے کسی بھی انسان کو اگر اللہ کی بندگی کر کے اگر اپنے پیدا کیے جانے کامقصد پورا کرنا اور کامیابی حاصل کرنا ہے تواللہ کی اس بندگی کے لیےخدا کے ہاں مقبول راستہ اسلام کے علاوہ اور کوئی نہیں جسے خدا نے اپنے رسولﷺ پر مکمل کر دیا۔• بہترین مقصد زندگیہم نے جانا کہ اللہ کی بندگي کا صحیح اور اللہ کے ہاں قابل قبول راستہ اسلام ہی ہے

اب آئيے بندگیء رب کے راستے یعنی اسلام پر عمل کرتے ہوئے زندگی کے ایک اعلی ترین مقصد کے بارے میں جانتے ہیں۔ جس بات کا ہم تذکرہ کرنے چلے ہیں قرآن عظیم کے مطابق یہ انسانی زبان سے نکلنے والی سب سے اچھی بات ہے اور وہ سبب ہے جس کے لیے اللہ نے اپنے جلیل القدرپیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور یہ وہ مقصد ہے جوساری انسانیت کےچنے ہوئے بہترین لوگوں کا مقصد زندگی رہا ہے۔اوریہ راستہ اور یہ مقصد دعوت الی اللہ یعنی انسانیت کو اللہ کی طرف بلانا ہے:سورة فصلت (41)وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ {33}اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔سورة القصص ( 28 )۔۔۔

وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ {87} وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۔۔۔ {88}اپنے رب کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو اور اللہ کے ساتھ کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکارو۔ اُس کے سوا کوئی معبُود نہیں ہے۔ سورة النحل ( 16 )

ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۔۔۔{125}

اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ہاں یہی اُمتِ محمدﷺکا مقصدِ وجود اور افضلیت کا سبب ہے۔کہ جس قرآن و سنت کو اللہ کے نبیﷺ ہمارےدرمیان چھوڑ کر ہم پر اتمام حجت کر گئے ہیں آپﷺ کی اس دعوت اوراللہ کے اس پیغام کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں تک پہنچانا ہے۔اوریہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا بلغواعنی ولوایۃ مجھ سے آگے پہنچاؤ بھلے وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔

اور اس طرح ہمیں انسانیت کو اللہ کی طرف بلانا ہے،دنیا والوں پرحق کی گواہی و شہادت کا فریضہ انجام دینا ہے، نیکی کا حکم دینا ہےاور برائی سے روکنا ہے کہ اللہ کا راستہ اختیار کرنا ہی ساری انسانیت کے لیے کامیابی اور فلاح کاراستہ ہے۔اور دعوت الی اللہ ہی اسلام پر عمل پیرا ہو کر بندگي ءرب میں ہماری حیات کا بلند ترین نصب العین ہو سکتا ہے۔سورة البقرة ( 2 )

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۔۔۔ {143}اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک “اُمتِ وَسَط” بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔سورة آل عمران ( 3 ) كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ ۔۔۔ {110}

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کی لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔سورة آل عمران ( 3 ) وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ {104}تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔ہمیں اللہ نے بس اپنی بندگی کے سوا کسی اور مقصد کےلیے پیدانہیں کیا ہے۔اور ہماراخدا کی بندگي کرنا ہمارے اپنے ہی لیے مفید ہے وگرنہ اللہ اس سے بے نیاز ہے۔ ہم بندگی کریں تو اس کی رفعت و شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمارےکفر کرنے سے اس کی بادشاہی و شوکت میں کوئی فرق آتا ہے۔وہ بہت ہی ارفع واعلی و بے نیازہستی ہے جس کی حکومت و اقتدار بلکہ اس کے سارے کام اس کے اپنے ہی بل بوتے اور طاقت پر چل رہے ہیں اورکسی کی بندگی یا مدد کے محتاج نہیں ۔ہمارا ایک ہی اللہ کے آگے دل و دماغ و جی جان سے سر تسلیم خم کر دینا ہماری اپنی ہی بھلائی ہے اورہماری ہی سلامتی و فلاح کی ضمانت ہے

۔اسی ایک اللہ کے در پہ جھک جانا ہمیں دوسرے لاتعداد دروں پر جھکنے کی ذلت سے بچا سکتا ہے۔بقول اقبال رحمہ اللہ:وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہےہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات آئیےاپنے پیدا کیے جانے کے مقصد کو پہچانتے ہیں اوراپنی پوری زندگی میں دیگرساری بندگياں ترک کرکےکلی طورپر بس اللہ ہی کی بندگي کاراستہ اختیار کرتے ہیں۔جو رزق اور جو نعمتیں اللہ نے ہمارے لیے مقدر فرمائی ہیں وہ تو بہر حال اللہ ہمیں دے کر ہی رہے گا پھردنیا ہی کے پیچھے دوڑنے کا کیا فائدہ۔ آئیےاپنے لیے زندگي کا بہترین مصرف منتخب کرتے ہیں، اپنی زبان سےبہترین بات نکالتے اور اپنے قلم سے بہترین بات لکھتے ہیں، خود بھی اللہ ہی کی بندگی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اللہ ہی کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں، اور اس طرح انسانیت کواللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اپنے تک پہنچے ہوئے حق کی شہادت دیتے ہیں کہ یہی اللہ کی بندگی میں جینے کا بہترین راستہ اورزندگي کا اعلی ترین مقصد ہو سکتا ہے ۔آئيے اللہ سے ایک عظیم میثاق باندھتے ہیں:

سورة الأنعام ( 6 )قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {162} لاَ شَرِيكَ لَهُ ۔۔۔ {163}

کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔آئیے ہر دوسری بندگی سے منہ موڑتے ہیں اور اللہ کی بندگي کےاس وعدے کی روح کو پہچانتے ہیں جو ہم ہر نماز میں کئی بار اپنے رب سے کرتے ہیں

ایاک نعبد و ایا ک نستعیناے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیںآئیےاللہ ہی کی بندگی کرنے کےاپنے اس عہد کو وفا کرتے ہیں جس کا اقرارکر کے ہم دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔

لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ نہیں کوئی معبود اللہ کے سوا اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔(ترتیب و تالیف: اورنگزیب یوسف)


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.