خاور ندیم، اسسٹنٹ پروفیسر اردو، ڈگری کالج باغ
انیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر کے کئی علاقوں اور مراکز سے مختلف سیاسی مذہبی اور ادبی شخصیات کشمیر آئیں۔ ان شخصیات میں حفیظ جالندھری ، نواب جعفر علی خان ، مولانا ظفر علی خان، خوشی محمد ناظر، ڈاکٹر خواجہ غلام السیدین، پنڈت برجموہن دتا تریہ کیفے، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اور دیگر شامل تھے۔ ان اہل علم شخصیات کے کشمیر آنے سے کشمیر میں اردو شعر و ادب کو فروغ ملا۔
ریاست جموں و کشمیر میں محمد دین فوق اور چراغ حسن حسرت اردو شعر و ادب کے حوالہ سے معتبر شخصیات موجود تھیں جو اردو ادب کے فروغ کے لیے کوشاں تھیں۔ محمد دین فوق نے تاریخ ، سوانح، سیاست اور سیاحت کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ چراغ حسن حسرت صحافی، شاعر اور افسانہ نگار تھے۔ ان کے علاوہ پریم ناتھ درد، سراج الحق ضیائ، حشمت اللہ خان، غلام احمد کشفی اور لال ذاکر نے کشمیر میں مختلف اصناف ادب کو فروغ دیا۔
ریاست جموں کشمیر میں اردو افسانہ کی روایت کا آغاز معروف کشمیری محرک ،ادیب اور شاعر محمد دین فوق سے ہوتا ہے ، انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پنجاب میں گزارا لیکن ان میں کشمیریت کا جذبہ سرد نہ ہوا۔ ڈاکٹر برج پریمی نے لکھاہے ۔
”فوق نے روش زمانہ کے مطابق کئی تاریخی اور نیم تاریخی سے قلمبند کیے ہیںجنہیں ہم کشمیر میں اردو افسانہ کے اولین نقوش کہہ سکتے ہیں”
محمد دین فوق کے بعد چراغ حسین حسرت نے مختلف اصناف ادب میں طبع آزامائی کی۔ وہ صحافی بھی تھے شاعر بھی اور افسانہ نگار بھی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ”کیلے کا چھلکا” ١٩٤٧میں لاہور سے شائع ہوا۔
١٩٤٢ء میں ریاست جموں کشمیر میں پہلا اخبار ”رنبیر” شائع ہوا جس کی اشاعت میں ریاست کے شاعروں اور ادیبوں کی ادبی صلاحتیوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ رنبیر اور اخبار عام کے حلقے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ پریم ناتھ پردیسی بھی شامل ہوئے ۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری کے ذریعے کیا لیکن جلد ہی انہوں نے شاعری ترک کر کے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں ۔
پر ابتدائی دور میں راجو کی ڈلی ، پارسل، ماں کا پیار ، جے کارا، سنتوش،سندھیا کا شراب اور شام و سحر ان کے اولین افسانی مجموعے ہیں۔ پریم ناتھ پردیسی کے فن کا آخری دور ١٩٤٧ء سے شروع ہوتا ہے ۔ اس دور میں ڈوگرہ شاہی کے شخصی نظام خاتمہ کی جانب رواں تھا لیکن اس عہد میں ظلم و جبر میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا جس کے خلاف پردیسی نے صدائے احتجاج بلند کی ۔ ڈاکٹر برج پریمی لکھتے ہیں ۔
”پردیسی نے کشمیر کو اپنے افسانوں میں پہلی بار پیش کیا اور ہزاروں لاکھوں کشمیریوں کو زبان بخشی”
پریم ناتھ پردیسی کے محاصل افسانہ نکاروں میں ایک نام پریم ناتھ درد کا بھی ہے جو انیسویں صدی کے چوتھے دہے میں اردو افسانے کے آسمان پر طلوع ہوئے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ١٩٤٧ء میں ہوا۔ درد کا زیادہ عرصہ کشمیر سے باہر گزرا لیکن کشمیر کے دیگر افسانہ نگاروں کی طرح وہ بھی کشمیر کو نہیں بھولے اور اپنے افسانوں میں کشمیر اور کشمیریوں کو پیش کرتے رہے ۔ پریم ناتھ درد کے صرف دو افسانے شائع ہوئے ”کاغذکا واسدیو” اور ”نیلی آنکھیں ”
پردیسی اور درد کے محاصرین میں کئی دوسرے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے ریاست میں اردو افسانہ کو فروغ بخشا ان افسانہ نگاروں میں تیرتھ کاشمیری ، کوثر سیمابی، محمود ہاشمی، محبوبہ حیدر یاسمین، غلام احمد فدا اور غلام حیدر چشتی زیادہ نمایاں ہیں۔
١٩٤٧ء میں ریاست جموں و کشمیر میں سیاسی تبدیلی نے ریاست کی سماجی ، ثقافتی اور ادبی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ نئے تقاضوں کے مطابق ریاست کے شاعر اور ادیب میدان میں اترے اور سماجی ، ثقافتی اور ادبی زندگی احیائے نو کا آغاز کیا۔ ان نئے لکھنے والوں میں اختر محی الدین،پشکر ناتھ ، حامدی کاشمیری اور دیگر افسانہ نگار شامل ہیں جنہوں نے اپنی کہانیوں میں نئے تقاضوں کی ترجمانی کی ۔ دراصل یہ افسانہ نگار ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے جس کی وجہ سے انہوں نے ریاست کے محنت کشوں اور غریب عوام کی ترجمانی کے لیے اردو افسانے میں روایتوں سے انحراف کرتے ہوئے رومان کے بجائے حقیقتوں کو سامنے لایا۔
اختر محی الدین کا نام ریاست جموں و کشمیر کے اردو افسانہ نگاروں میں سرفہرست ہے ۔ پہلے پہل انہوں نے اردو زبان میں افسانے لکھے لیکن بعد ازاں وہ کشمیری زبان میں بھی لکھنا شروع ہو گئے لیکن اردو زبان میں بھی ان کی کہانیاں کسی طرح بھی کم درجہ نہیں ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر میں ١٩٤٧ء کے بعد کے افسانہ نگاروں میں پشکر ناتھ کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں انہوں نے ایک رومان نگار کی حیثیت سے تخلیقی زندگی کا آغاز کیا لیکن جلد ہی رومانس کو چھوڑ کر کشمیر کی زندگی کے کرب کو اپنے افسانوں میں ڈال دیا۔ پشکر ناتھ کے تین افسانے ۔ اندھیرے اجالے، ڈل کے باسی اور عشق کا چاند اندھیرا شائع ہو چکے ہیں۔
حامدی کاشمیری ریاست کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں ان کے ہاں بھی ترقی پسند ادبیات کی جھلک ملتی ہے۔ حامدی کے کئی افسانوی مجوعے شائع ہو چکے ہیں جن میں وادی کے پھول، برف میں آگ اور سراب شامل ہیں۔ ان افسانہ نگاروں کے علاوہ ١٩٦٠ اور ١٩٦٥ء میں ریاست جموں کشمیر میں کئی کہانی کار سامنے آئے جنہوں نے روایت سے ہٹ کر تازہ موضوعات کے ذریعے اردو افسانہ کی ترقی کو نئی جہتیں عطاء کی ہیں۔ ان افسانہ نگاروں میں عمر مجید، ڈی کے کنول ، راجیش کور، موتی لال کپور، کلدیپ رعنا اور شبنم قیوم شامل ہیں ۔
تقسیم برصغیر کے بعد ریاست جموں کشمیر کی کئی حصوں میں منقسم ہو گئی ۔ ریاست کا ایک بڑا حصہ بھارت کے قبضہ میں چلا گیا ایک حصہ گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام ہے اور تقریبا پانچ ہزار مربع میل کے لگ بھگ علاقہ کو آزاد کشمیر کا نام دے کر آزاد حکومت قائم کی گئی ہے ۔ آزاد کشمیر میں بھی اردو زبان ادب کو فروغ حاصل ہے اردو کی تمام اصناف پر یہاں کے فنکار طبع آزمائی کر رہے ہیں ۔ اس خطہ میں ادب کی دیگر اصناف کی طرح افسانہ نگاری بھی فروغ پار ہی ہے ۔
”رپوتاژ کشمیر اداس ہے ”کے مصنف محمود ہاشمی کے بارے میں کم لوگ آگاہ ہیں کہ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز بطور افسانہ نگار کیا ۔ محمود ہاشمی کا پہلا افسانہ ”اور شہنائیاں بجتی رہی” دلی سے شائع ہوا۔ محمود ہاشی کالج کے زمانہ میں ادب لطیف ، پریت لڑی اور کتاب میں لکھتے رہے تاہم ان کے افسانے کسی مربوط صورت میں شائع نہیں ہوئے۔
محمد الیاس کا تعلق میرپور آزاد کشمیر سے ہے ان کی کہانیاں متعدد ادبی جرائد میں چھپی ہیں اس کے علاوہ ان کے تین افسانوی مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں ان افسانوی مجموعوں میں ”لوح ازل پر لکھی کہانیاں” ، ”مور پنکھ پر لکھی آنکھیں” اور ”صدیوں پر محیط ایک سفر ” شامل ہیں۔
غلام الثقلین نقوی کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع بھمبر سے ہے ان کی رہائش زیادہ تر آزاد کشمیر سے باہر رہی اس لیے ان کے کشمیر ی ہونے کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں۔ نقوی نے تقسیم برصغیر کے بعد اپنی ادبی اور فنی سفر کا آغاز کیا اب تک ان کے چھے افسانوی مجوعے شائع ہو چکے ہیں جن میں بند گلی ، شفق کے سائے،لمحے کی دیوار، نغمہ اور آگ، دھوپ کا سایہ اور سرگوشی شامل ہیں۔
محمد صغیر قمر کا شمار آزاد کشمیر کے معروف افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ جہاد ، آزاد ی اور وطن سے محبت ان کے افسانوں کے خاص موضوعات ہیں۔ ان کی کتاب ”خونی لکیر ”شائع ہو چکی ہے ۔
آزاد کشمیر میں مرد افسانہ نگاروں کے ساتھ خواتین افسانہ نگار بھی افسانہ نگاری کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔ ان میں سرفہرست نام بیگم ثریا خورشید کا ہے جو مسٹر محمد علی جناح بانی پاکستان کے پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر خورشید الحسن خورشید المعروف کے ایچ خورشید کی اہلیہ ہیں۔ ان کی چھے کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ”املتاس کے پیڑ ” ان کا افسانوی مجوعہ ہے جسے ویری ناگ پبلشر میرپور نے ١٩٨٦ء میں منظر عام پر لایا۔ ١٧٥ صفحات پر مشتمل اس مجموعہ میں ١٧ افسانے شامل ہیں۔ ثریا خورشید کے افسانہ نگاری کے بارے میں احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے ۔
”ثریا خورشید نے عورت کے دکھ کو اپنی کہانی کا مرکز بنایا ہے۔ ان کے افسانوں کی عورت مرد کی بے اعتنائی کے زخموں سے چور ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ عورت صدیوں سے استحصال اور نا انصافی کی چکی میں پس رہی ہے۔ اس کی روح پر جبر مسلسل کا کڑا عذاب ہے لیکن صرف ایسا ہیں نہیں اس دنیا میں عورت محتر م بھی ہے مگر مجھے یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے عورت صرف مظلوم نظر آئی۔ ”
ثریا خورشید کے علاوہ آزاد کشمیر کی خواتین افسانہ نگاروں میں نجمہ محمود ، منیرہ شمیم، تحسین جعفری ، بیگم نسیم علوی، عقیلہ کاظمی اور محترمہ کہکشاں ملک شامل ہیں۔ کہکشاں ملک مظفرآباد آزاد کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان کے افسانی مجموعے ”ساعت کا پھیلائو” اور ”جھیل اور جھرنے” ہیں جنہیں مکتبہ ارژنگ پشاور میں ١٩٨١ء میں شائع کیا۔ کہکشاں ملک کے افسانون کا ماحول اور پس منظر مکمل طور پر کشمیری ہے ۔ مجموعی طور پر ریاست جموں و کشمیر میں اردو افسانہ نگاری کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اردو افسانہ ریاست میں کبھی بھی جمود کا شکار نہیں رہا باوجود اس کے کہ اردو افسانہ ریاست میں کم سن صنف ہے اور اس کی اشاعت کے لیے مواقع بھی کم ہیں ۔ ریاست کے افسانہ نگاروں نے جو کہانیاں تخلیق کی ہیں وہ اردو کی بہترین کہانوں میں شمار ہوتی ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.