مدیرہ منزہ سہام مرزا سے حمیرا علیم کا   انٹرویو

You are currently viewing مدیرہ منزہ سہام مرزا سے حمیرا علیم کا   انٹرویو

مدیرہ منزہ سہام مرزا سے حمیرا علیم کا   انٹرویو

حمیرا علیم
 منزہ سہام مرزا کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ان کی شخصیت میرے لیے کسی لیجنڈ سے کم نہیں ہے۔ انہیں میں نے ہمیشہ ایک مضبوط عورت کے روپ میں دیکھا ہے جو اپنے والد کے مشن کو بیٹا بن کر پروان چڑھا رہی ہیں۔منزہ سہام دوشیزہ اور سچی کہانیاں کی مدیرہ اعلی ،کیپٹل نیوز کی چیف ایڈیٹر  اورممبر اسٹینڈنگ کمیٹی کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز اور آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی بھی ہیں۔

: اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔آپ کا بچپن کیسا تھاآپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے؟
منزہ سہام: میں دوسرے بچوں کی طرح کھیلتی نہیں تھی نہ ہی چھٹیوں میں رشتے داروں کے ہاں جاتی تھی۔بلکہ  اپنے والد سہام مرزا کے ساتھ آفس جایا کرتی تھی۔وہ میرے ساتھ کہانیاں ڈسکس کیا کرتے تھے۔مجھے شروع سے ہی اس کام سے لگاو رہا ہے۔ہمارے ادارے سے بچوں کے لیے ” بچوں کا رسالہ” نامی رسالہ شائع ہوتا تھا۔میں اس میں “کوا کہانی “کے نام سے کہانی لکھتی تھی۔اس کا مرکزی خیال میرے والد کا ہی تھا۔تو بہت چھوٹی عمر سے کہانیوں میں معاشرتی مسائل کو ڈسکس کرنا شروع کر دیا تھا۔مجھے بلیاں بہت پسند تھیں میں نے پانچویں کلاس میں پہلی کہانی ” بلی کانفرنس” کے نام سے لکھی اس کے بعد کوا کہانی ۔والد کے انتقال کے بعد جب میں نے آفس سنبھالا تو مجھے بہت سی چیزوں کا علم نہیں تھا۔لیکن والد کے ساتھ آفس آتے جاتے بہت سی چیزیں غیر ارادی طور پر سیکھتی گئی لہٰذا زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔میں نے انٹرنیشنل ریلیشنز( آئی آر)میں ماسٹرز کیا ہے۔: کیا بحیثیت ایک خاتون اور ماں آپ کا صحافتی سفر آسان تھا؟
منزہ سہام: اللہ تعالٰی نے عورت کو بہت پمپرڈ اور پروٹیکٹڈ بنایا ہے۔جسے معاش کے لیے باہر نہ نکلنا پڑے۔لیکن میں بچپن میں جب سنتی تھی کہ لوگ میرے والد سے کہتے تھے آپ کا تو کوئی بیٹا نہیں تو کیسے چلے گا۔تو مجھے غصہ آتا تھا اور میں کہتی تھی کہ میں آپ کا بیٹا ہوں۔انہوں نے بھی میری تربیت بیٹوں ہی کی طرح کی۔اور مجھے سب کچھ سکھایا۔
   یقینا چاردیواری کے تحفظ سے نکل کر کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔گھر اور بچے نظرانداز ہوتے ہیں۔جس کا ایک ماں کو افسوس بھی ہوتا ہے اور مجھے بھی ہے۔

: آپ کیا سمجھتی ہیں خواتین لکھاریوں کی سوچ کس سمت بڑھ رہی ہے؟ آپ ان کی ادبی کاوشوں سے مطمئن ہیں؟
منزہ سہام: میرے خیال میں نئی نسل مطالعہ نہیں کرتی۔وہ جو کچھ ڈراموں میں دیکھتے ہیں اسے ہی چند تبدیلیوں کے بعد لکھ دیتے ہیں حالانکہ وہ سب حقیقت سے بہت دور ہے۔حقیقی زندگی کا عکاس نہیں ۔نئی نسل جلداز جلد اسکرپٹ رائٹر بننا چاہتی ہے۔میں سمجھتی ہوں اچھا لکھنے کے لیے اچھا پڑھنا بھی ضروری ہے۔ایک بچہ جب پڑھنے کا آغاز کرتا ہے تو منٹو، عصمت چغتائی،  شیکسپیئر یا کیٹس کو نہیں پڑھتا بلکہ اپنی ذہنی سطح کے مطابق کتب پڑھتا ہے۔بچوں کو مطالعے کی عادت ہونی چاہیےنہ صرف لکھنے کے لیے بلکہ زندگی برتنے کے لیے بھی۔ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی ہے اچھی بات ہے مگر اس کا اثر کتب بینی پر ہوا ہے۔میرا ماننا ہے کہ کتاب کا کوئی نعم البدل نہیں۔
زندگی کے اس سفر کے دوران آپ نے زندگی کی مختلف جہتوں کو قریب سے دیکھا ہے میرا سوال یہ ہے کہ بطور صحافی آپ کا زندگی کے بارے میں کیا نظریہ ہے اور ایک عام فرد کی حیثیت سے آپ اسے کس طرح دیکھتی ہیں؟

منزہ سہام: میں نے زندگی سے سیکھا کہ عافیت اسی میں ہے کہ آپ بہت زیادہ میل جول نہ رکھیں ۔میں نے صرف اپنے والد کی خوشنودی کی خاطر دفتر سنبھالا بھائی کوئی نہیں تھا اور وہ چاہتے تھے کہ میں ان کا آفس سنبھال لوں۔زندگی انسان کو بہت کچھ دکھاتی ہے ،اور مشکلات بہت کچھ سکھاتی ہیں لیکن ان سب میں صرف انسانی روئیے ہیں جو بہت دکھ دیتے ہیں ۔۔سب سے کڑا وقت وہ ہے جب انسان کو انسان کی پہچان ہونے لگتی ہے۔

:آپ کا تعلق دنیائے صحافت سے ہے اور آپ اس وقت ماشاء اللہ روزنامہ کیپٹل نیوز  کی چیف  ایڈیٹر اورماہنامہ دوشیزہ اور سچی کہانیاں کی مدیرہ اعلی کے طور پہ اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں میں یہ جاننا چاہتی ہوں کیا صحافت ہمیشہ سے آپ کی ترجیحی خواہشات میں شامل تھی یا  یہ آپ کے والد سے وراثت میں ملی؟
منزہ سہام: یہ کہنا درست ہو گا کہ صحافت مجھے وراثت میں ملی۔پہلے میں کہانیاں اور افسانے لکھتی تھی پھر کالمز لکھنے میں مزہ آنے لگا۔مجھے سوشل ایشوز ڈسکس کرنے تھے جو کہ افسانے میں بھی کیے جا سکتے ہیں لیکن ذاتی طور پر مجھے کم الفاظ میں بات کہنا یا لکھنا پسند ہے۔چنانچہ کالمز لکھنے لگی۔سچ تو یہ ہے کہ کالمز ہوں یا افسانے لوگ سمجھتے نہیں یا شاید سمجھنا نہیں چاہتے۔اس لیے کالمز لکھنے بھی چھوڑ دیا۔اس کے بعد میں نے ایک چھوٹی سی ڈائری کے طور پر” شہید کی ڈائری ” لکھنا شروع کی جو دو صفحات پہ مشتمل ہوتی تھی۔جس میں میں لکھتی تھی کہ 1965 کی جنگ کا ایک شہید جنت سے پاکستان کو کیسے دیکھتا ہے۔دل تو بہت چاہتا ہے کہ کچھ لکھوں مگر جب آپ ایک ادارہ چلا رہے ہوتے ہیں تو مشکل ہوتا ہے وقت نہیں ملتا اس کیےاب صرف اداریہ ہی لکھتی ہوں۔
:آج  جب کہ زرد صحافت  اور طاقت کے استحصال نے قلم و زبان کو پابند کر دیا ہے ہے۔ایسے میں آپ کو کیا لگتا ہے ایک سچے صحافی کے لیے اپنے فرائض کی انجام دہی کیسے ممکن ہے؟
منزہ سہام: سچ بہت طاقت ور ہوتا ہے لہذا اس کا بوجھ کمزور لوگ اٹھا ہی نہیں سکتے اب وہ صحافت ہو  یا صدارت ناتواں کے بس کی بات نہیں۔۔۔
7: کیا موجودہ وقت میں نوجوان نسل کا صحافت کی طرف رجحان تسلی بخش ہے یا وہ اس سے برگشتہ ہو رہے ہیں؟ ایک صحافی بننے کے خواہشمند طالب علم کو اپنے اندر کن صلاحیتوں کو پالش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیا اس کے لیے کوئی ڈپلومہ وغیرہ بھی کرنا ضروری ہوتا ہے؟
منزہ سہام:  نوجوان نسل بہت جلدی میں ہے وہ بنا محنت سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عام طور سے
تعلیم کی اہمیت سے تو انکار ممکن ہی نہیں مگر تربیت بھی لازمی ہے سینئرز کے ساتھ کام کرنا کام اور شخصیت دونوں کو نکھارتا ہے۔

:ایک ایڈیٹر کے لیے بےشمار اچھی تحریروں میں سے ایک عمدہ تحریر کا انتخاب کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔کیا آپ کو بھی ایسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بطور ایڈیٹر آپ کن باتوں کا خاص خیال رکھتی ہیں؟
منزہ سہام: اب تجربہ اتنا ہے کہ ابتدائی چند سطریں ہی بتادیتی ہیں کہ لکھنے والا کہاں کھڑا ہے میری کوشش ہوتی ہے کہ صاف ستھری،مثبت پیغام دیتی تحریر شائع کروں۔


:موجودہ وقت میں صحافت کا کیا مستقبل ہے اور ملک کے مستقبل کی تعمیر میں ایک سچی اور اصولی صحافت کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
منزہ سہام: مجموعی طور پر معاشرہ انحطاط کا شکار ہے ایسے میں ہر شعبہ تنزلی کی جانب گامزن ہے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اپنی نئی نسل پر محنت کرنی ہوگی اسلاف کی روایات کو اپنانا ہوگا ۔

:اگر آپ کو کسی بھی شعبے کےانتخاب کا ایک موقع ملے تو کیا آپ پھر سے صحافت کا انتخاب کریں گی یا کوئی دوسرا شعبہ چنیں گی اور وہ کون سا شعبہ ہوگا اور اس کے انتخاب کی کیا وجہ ہو گی؟
منزہ سہام: مجھے دیس دیس گھومنے کا بہت شوق تھا اور اب بھی جب موقع ملتا ہے تو عازم سفر ہوتی ہوں ۔

سیاست ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتی ہے۔جس کے ذریعے کئے گئے اقدامات کا اثر پورے ملک پر ہوتا ہے۔ آپ کے نزدیک سیاست کیا ہے اور کیا سیاست کے لیے اصول کا ہونا لازمی ہوتا ہے؟
منزہ سہام: میں سمجھتی ہوں سیاست بہت بڑی ذمہ داری ہے جس میں کردار اور گفتار کا غنی ہونا شرط ہے اور جہاں ابتدا بھی وطن اور انتہا بھی وطن ہونی چاہیے۔

: کیا الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا  کی وجہ سے پرنٹ میڈیا کی اہمیت متاثر ہوئی ہے یا جوں کی توں ہے ؟
منزہ سہام: میرا ماننا ہے تعلیم سے دوری نے پرنٹ میڈیا کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے لوگوں کی نظر میں کتاب پر خرچ کرنا پیسے کا زیاں ہے اور ظاہر ہے ایسی سوچ پڑھے لکھے معاشرہ کی نہیں ہوتی۔

:کوئی ایک سوال جس کا جواب آپ دینا چاہتی ہوں لیکن میں پوچھ نہ سکی ہوں اپنے اس خیال کو اس سوال کے ذریعے سے ہمارے قارئین تک پہنچانا چاہیں گی؟
منزہ سہام: میں صرف اتنا کہوں گی کہ خدارا پاکستان کی قدر کریں یہ زمین پر ہماری جنت ہے اس کو یوں بے مول نہ کریں ۔
کوئی ایسا واقعہ جس نے آپ کی زندگی پہ گہرے اثرات مرتب کیے ہوں؟
منزہ سہام: میرے والد کا تعلق چونکہ دکن سے تھا تو دکن سے میری بہت خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔میں چھ یا سات سال کی تھی تو ہم انڈیا گئے جہاں عصمت چغتائی اور جیلانی بانو سے ملاقات ہوئی۔دکن میں ڈان اسکول تھا جس میں بہت سے گلاب لگے ہوئے تھے میں نے کہا: ” یہ بہت خوبصورت ہیں۔” پھر ہم جتنے دن بھی وہاں رہے میرے لیے  روزانہ اسکول سے سے ایک شخص ڈھیروں گلاب لے کر آتا تھا۔
اللہ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے مجھے ہمیشہ محفوظ رکھا والد کی بیماری اور پھر ان کا انتقال میرے لئے بہت بڑی آزمائش تھی لیکن اللہ نے وہاں بھی مجھے صبر عطا کیا۔:کوئی پیغام جو آپ اپنے قارئین کو دینا پسند کریں؟
منزہ سہام: خود احتسابی کے عمل سے گزریں ہمارے آس پاس سب اچھا ہونا شروع ہو جائے گا۔




Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.