انعام الحسن کاشمیری
یہ بڑا مشکل امر تھا کہ میں اپنے بچوں کو موبائل فون پر گیمیں کھیلنے اور کارٹونز دیکھنے کی انتہائی بد لت سے کیسے دور کروں۔ کبھی مارپیٹ اور کبھی پیار ومحبت، کبھی کھلونوں کے لالچ اور کبھی شوارما اور برگرلانے کے وعدوں کے باوجود دونوں بڑے بچے ہی نہیں بلکہ دوچھوٹے بچے بھی جن کی عمریں تین اور دوبرس ہیں ، موبائل فون کے اس قدر رسیا ہیں کہ وہ کھانا بھی موبائل فون سامنے رکھ کر کھاتے ۔۔۔یہ المیہ ہر اس شخص کا ہے جس کے ہاں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔۔۔
ایک دن پریس فار پیس فائونڈیشن کے جناب ظفراقبال نے محترمہ تسنیم جعفری کی کتاب جنگل کہانی کی پی ڈی ایف فائل بھجوائی جس پر کچھ لکھ کر دینے کا حکم دیاتھا۔۔اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بچوں کے لیے جنگل کہانی سمیت دیگر کتابیں بھی بذریعہ ڈاک بھجوانے کا وعدہ فرمایا۔ ۔۔مجھے اس میں کوئی خاص دلچسپی محسوس نہیں ہوئی۔۔میں متعدد بار بچوں کے لیے کہانیوں کی کافی کتابیں لاچکا تھا جنھیں وہ چند صفحات مجھ سے سننے کے بعد ادھر ادھر کردیتے اور دوبارہ موبائل فون میں مشغول ہوجاتے۔۔۔۔تیسرے ہی دن مجھے محترمہ تسنیم جعفر ی کی طرف سے ان کی تخلیق کردہ تین کتابوں کا پیکٹ موصول ہوگیا۔۔۔۔میں نے جنگل کہانی کھول کر پڑھنا شروع کی تو بچے بھی میرے اردگرد جمع ہوگئے اور پوچھنے لگے کہ یہ کیسی کتابیں ہیں۔۔ٹائٹلز دیکھ کر انھیں اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ بچو ں کے لیے کہانیاں ہیں۔
بڑے بچے کی فرمائش پر میں نے جنگل کہانی جوکہ دراصل مختلف کہانیوں کامجموعہ ہے، میں سے پہلی کہانی “شیرصاحب اور دھوپ کا غسل ” سنانا شروع کردی۔ بچوں نے حیرت انگیز طور پر اس میں بے انتہا دلچسپی لی ۔ انھو ں نےبڑے غور سے ساری کہانی سنی اور پھر فرمائش کی کہ اگلی کہانی بھی پڑھ کر سنائوں۔
اگلی کہانی تھی “ننھی گلہری چلی سکول ” ۔ میں نے یہ پڑھ کر سنائی اور پھر کتاب رکھ دی۔۔۔۔بعدمیں بیٹے نےکتاب اٹھالی اور پھر خود ہی پڑھنے لگا۔۔۔کوئی لفظ یا بات سمجھ نہ آتی تو پوچھ لیتا لیکن اس کے باوجود اس نے نہ صرف جنگل کہانی کامطالعہ جاری رکھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس نے پوزی اور الیکٹرا کا سائنسی ناول بھی شروع کردیا۔۔۔۔
چھوٹی بیٹی چونکہ خود نہیں پڑھ سکتی تھی تو اس نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں اسے کہانی پڑھ کر سنائوں۔۔۔اس دوران بھی میرا بیٹااگلے واقعہ کاخود لقمہ دینے لگا کہ اس کے بعد یہ بات ہے اور اس کے بعد یہ۔۔۔یہ بڑی لائق توجہ بات تھی اور بے انتہاسراہے جانے کے بھی قابل کہ جو بچے موبائل فون کی دنیا میں ہی گم ہوگئے ہیں ، تو جنگل کہانی اور پوزی اور الیکٹرا نے انھیں واپس اپنی دنیا میں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۔۔۔۔۔
اس سے قبل میرے بچوں نے کبھی کتاب پڑھنے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔۔۔لیکن محترمہ تسنیم جعفری نے جس انداز سے جنگل کہانی اور دیگر کہانیاں لکھی ہیں یہ بچوں کی نفسیات کے عین مطابق ہیں اور خاص طور پر ان بچوں کے لیے یہ بہترین تخلیقات ہیں جن کے اذہان موبائل فون نے اپنی جانب پوری طرح راغب کررکھے ہیں۔ ۔
سائنسی جنگل کہانی جو دراصل ایک ایسا ناول ہے، جسے آپ کہانیوں کامجموعہ بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ کسی بھی کہانی کو پڑھا جائے، تو وہ بذات خود ایک مکمل کہانی کے روپے میں سامنے آتی ہے اور اس میں کوئی کمی یاجھول باقی نہیں رہتا۔ میری جیسی عمرکا فرد بھی جب یہ کہانیاں پڑھتا ہے تو ان میں اسی طرح دلچسپی محسوس کرتاہے جیسا ایک وہ ایک بچہ ہو۔
میں نے آغاز کیا تو پھر پڑھتا ہے چلا گیا۔ زبان اس قدر عام فہم ہے کہ اس کے بعد کسی کو بتانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی کہ اس بات کا مطلب یہ ہے۔ گویا کہانی کے روپ میں تمام ابلاغی تقاضے بخوبی پورے کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم وتربیت کا بھی خیال رکھاگیاہے۔ ننھے منے جانوروں سے لے کر درندوں تک کی عادات وخصائل کو ایک کہانی کے روپ میں بیان کرتے ہوئے کہ جیسے وہ انسانوں کی طرح کے ہوں، بچوں کے علم میں اضافہ کیا گیا ہے۔
”شیر صاحب اور دھوپ کا غسل“ میں جہاں شیر،لومڑی، بھیڑیا، لگربھگڑ کی عادتوں کے بارے میں بتایا ہے،وہیں وہ آکٹوپس کو جب ”ہشت پا“ کہتی ہیں تو اس سے صاف طور پر یہ چیز سامنے آجاتی ہے کہ چھ آٹھ ٹانگوں والا یہ ایک جانور ہے۔
اسی طرح ”ننھی گلہر ی چلی سکول“ میں مصنفہ نے بڑی خوبصورتی اور خداداد صلاحیت کے بل بوتے پر گلہری جیسے معصوم جانور کی معصومیت کو جس طرح بیان کیا ہے، اس سے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ گلہری کو پالتو جانور کے طور پر گھر میں پالنا چاہیے تاکہ بچوں اس سے کھیل سکیں۔
اس کہانی کا پہلا جملہ ہی بڑا دلچسپ ہے جب ننھی گلہری اپنی والدہ سے کہتی ہے کہ ”امی جان تھوڑی دیر اور سونے دیں، سکول سے کہیں ابھی بند رہے، ننھی سو رہی ہے۔“ ایسا جملہ صرف وہی تخلیق کار قرطاس پر اتارسکتاہے جس نے بچوں کو کھیلتے، انھیں آپس میں باتیں کرتے، اور ایک طرح سے خود کو ان کی محفل میں ایک ننھا بچہ بناتے ہوئے ساری کیفیات اور کھیل کود کے لطف کو اپنے دل کی گہرائیوں کے اندر تک محسوس کیا ہوگا۔
یہی ننھی گلہری جب کہتی ہے کہ ”ناشتے کو بھوکا رہنے دیں“ تو اس تخلیق کار پر رشک آتاہے۔ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے، دلچسپ،لطف انگیز، حیرت انگیز جملوں سے یہ ناول بھرا پڑا ہے۔ اس ناول کی سب سے حیرت انگیزخاصیت یہ ہے کہ اسے بڑے لوگ بھی پڑھ سکتے ہیں اور اسی طرح کی دلچسپی پاسکتے ہیں جس طرح کہ بڑی کتابوں سے ملتی ہے۔ یہی دراصل ایک مصنف یا تخلیق کار کی اصل کامیابی ہوتی ہے۔
پوزی اور الیکٹرا دو بہن بھائیوں کے کردار پر مشتمل سائنسی ناول ہے ۔۔یہ دونوں بچے ایک سائنسدان کی اولاد ہیں جو ایک سائنسی تجربہ کے دوران ٹیوب میں بیٹھ کر تیس چالیس سال قبل کے زمانے میں پہنچ جاتے ہیں جب ان کے اپنے والد ان ہی کی طرح کے ایک بچے تھے اور ان کی والدہ یعنی بچوں کی دادی سے ملاقات کرتے ہیں۔ ۔۔ان کے مابین جو گفتگو ہوتی ہے اور پھر ناول میں سائنسی اصطلاحات کو جس طرح بچوں کی تفہیم کے مطابق استعمال کیا گیا ہے اس سے نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کے لیے بھی دلچسپی کازبردست سامان مہیاہوتاہے۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ ایک بار یہ ناول شروع کیاجائے تو پھر روانی آخر تک برقرار رہتی ہے ۔۔۔
اپنے بچوں کی ان ناولوں میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ جو والدین میری طرح پریشان اور متفکر ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ یہ کتب اپنے بچوں کے زیرمطالعہ لائیں۔۔۔۔آج کے بچے جو جدید ٹیکنالوجی کے ڈسے ہوئے ہیں ان کے لیے یہ کتابیں یقینا ً تریاق ثابت ہوں گی۔۔۔۔۔کتاب ہاتھ میں اٹھا کر پڑھنے کا اپنا ہی ایک لطف ہے اور ہمیں اپنے بچوں کو اس لطف سے آشنا کرنا چاہیے تاکہ وہ زندگی کے اصل لطف اور مزے کا احساس براہ راست اپنے دل میں محسوس کرسکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.