تبصرہ. پروفیسر خالد اکبر
جاوید خان کاپہلاسفر نامہ ’عظیم ہمالیہ کے حضور‘شائع ہوا تو راقم الحروف کو اس کے اولین قارئین میں شامل ہونے کا مو قع ملا۔پہلاتبصرہ بھی راقم نے کیا چونکہ جاوید خان ہمارے عہد رفتہ کے ہونہار طلبہ کی فہرست میں ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے دوست بھی ہیں۔اوربطور قلم کار اورکالم نگار ہمیں متاثر ہی نہیں کا فی معتقد بھی کر چکے ہیں۔ہماری طرف سے اس اولین تبصرہ کو یار لوگوں نے غلو اور ہائپربولکقرار دیا۔
ہم اپنی جگہ خوش اور صد فی صدی پُر سکون تھے کہ ہم نہ کوئی پیشہ ور تبصرہ نگار ہیں نہ ہی اس طرح کی کسی کاو ش کاحصہ ہیں۔بلکہ ایک مبتدی اور گوال گدرے سے زیادہ ہماری کوئی حیثیت نہیں۔البتہ ہر دور میں سفرنامے ہمارے بے قاعدہ مطالعہ کے علاقے رہے ہیں۔
محمود نظامی کے سفرنامہ ’نظرنامہ‘سے لے کر ’آواگون تک‘جو بھی ہمارے ہتھے چڑھا ہم نے پڑھنے کی کوشش ضرور کی۔اپنی اس کہج فہمی اور لاشعوری معلومات کے باوصف ہمیں جاوید کاسفرنامہ ’عظیم ہمالیہ کے حضور‘کسی بھی طور پر ’نظرنامہ‘آواگون اور ’اک ذرا افغانستان تک‘سے کم نہ لگا۔سوہم نے جو محسوس کیا اسے برجستہ مگرپورے خلوص اور شرح صدر کے ساتھ ’ادب عالیہ‘ میں شامل ہونے والاسفرنامہ قرار دیا۔الحمدللہ سفرنامہ عظیم ہمالیہ کے حضور سال کابہترین ایوارڈ جیتنے کے بعد مزید پذیرائی حاصل کرنے کے رستے پر رواں دواں ہی تھاکہ جاوید نے ایک اور عمدہ بلکہ پہلے والے سے بڑھ کرہندوکش کے دامن میں کے عنوان کے تحت ایک اور قابل قدرتخلیق کر ڈالی۔ ہندوکش کے دامن میں بے شمار علمی،ادبی اور فکری خصائل کا مرقع ایک شاہکار سفر نامہ ہے۔ ذیل میں مذکورہ بیان کردہ نمایاں خصوصیات سفر نامہ کے ہمہ جہت ہونے کا پکار پکار کر اظہار کر تی ہیں۔
منظر نگاری کا پرفیکٹ اظہار اس سفر نامہ کی انفرادیت کو دو بالا کرتا ہے۔جاوید خان کی منظر نگاری کا ملکہ تو باکمال ہے۔ وہ منظر کابیان ا ور استعارات،تشبیہات، تلمیحات اور دیگر لسانی صنعتوں کے استعمال سے اتنی لطافت اور تفصیل سے کرتے ہیں کہ پورامنظر لوح ذہن پر نقش ہوکرآنکھوں کی سکرین پر واضح شکل میں ہویدا ہوتاہے اورقاری ایک عجب ساحظ لیتاہے:”کوہل کے نیچے ڈھلوانیں ہیں۔ان ڈھلوانوں کے نیچے ایک نیلگوں اور دودھیا پانی کی چھلانگیں مارتاایک پہاڑی دریا بہہ رہاہے“۔
”چیت کاابر گرجتا ہے۔چیت کاابرذراغصیلہ ہوتاہے۔برہم برہم۔موسم سرماکاابر زیادہ غصیلہ ہوتاہے۔برہم،جارح اور شدت سے برسنے والا۔جوپالالے آتاہے اور ہریالی چھین لیتاہے۔ہریالی کی جگہ بنوں میں،نخلستانوں میں گھاس زردی مائل ہوکردھلنے لگتی ہے پھرچمکنے لگتی ہے۔“منظر نگاری کے ایسے دلفریب اور روح افزا مناظر پوری کتاب پراپنے رنگ بکھیرتے نظر آتے ہیں۔
علاوہ ازیں، اس کتاب میں علامت نگاری
کااستعمال بھی جابجا ملتاہے جوسفرنامہ نگارکی تخیل آفرینی کابھرپور اظہارہے۔مثلاً ”ہرپہاڑ تن کر کھڑانہیں ہوتاکچھ سر جھکاکر بھی کھڑے ہوتے ہیں۔پہاڑوں میں جلال ہی نہیں جمال بھی ہوتاہے۔تنتناہی نہیں عجز بھی ہوتاہے۔بے زبانی ہی نہیں کلام بھی ہوتاہے۔“
”ماضی کی سڑک پُرپیچ ہے اور کئی طرح کے مرد ان پرپیچ رستوں پر لڑکھڑاتے پھرتے ہیں۔بلکہ مردوں کااژدھام ہے۔اکثر پرنفس کاگھوڑا سوار ہے اور کچھ نفس کے گھوڑے کو نکیل ڈالے خراماں خراماں چل رہے ہیں۔
جاوید کی رگ ظرافت بھی جابجاپھڑک اٹھتی ہے۔جو اس سفرنامہ کی ہمہ جہتی میں اضافہ بھی کرتی ہے اور ایک قاری کو زیر لب مسکرانے پر مجبور بھی۔ایک جگہ کیلاش عورتوں کی فطری خوبصورتی اور کاسمیٹک سے گریز پارویہ کے بارے میں چوٹ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں۔”کیلاشاعورتوں کے چہرے کو کاسمیٹک کاسامان خراب کرنے کاجرم تو کرسکتاہے،سنوارنے کانہیں“
”موذن خوش آواز تھا۔اکثرموذن اپنے کام سے بہت زیادتی کردیتے ہیں۔“
جاویدکو تہذیبوں کے عروج و زوال اورتاریخ سے گہری دلچسپی ہے۔عام گفتگو اور نشت وبرخاست میں آپ اس طرح کی چونکادینے والے دلچسپ واقعات اوران کے محرکات زوال وعروج کی وجوہات پر بے لاگ تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔
زیر نظر کتاب میں کہیں آپ ھسٹاگرافر
کے انداز میں اور کبھی ماہر لسانیات اور کہیں ماہر علم البشریات کے انداز میں اس قدر گم ہوجاتے ہیں کہ سفر کااحوال ان کے ذہین کے پچھلے حصوں اور یہ استادیاں آگے نظر آتی ہیں:”خانہ بدوشی خود ایک تہذیب ہے تہذیبیں کبھی جنگلی نہیں ہواکرتیں اور نہ ہی اَن پڑھ۔اپنی تہذیبوں کو،اپنے رواجوں کو بچارکھنا اور اپنی اساطیروں کو سنبھال کر رکھنا ہر کسی کے بس میں کہاں؟“سفرنامہ کے درجن بھر صفحات گندھارا اور بدھ تہذیب سے متعلق ہیں۔جو ان تہذیبوں کے علاوہ تمام دفن شدہ تہذیبوں کو کھوج لگانے اورجاننے کی تحریک پیداکرتے ہیں۔
فلسفیانہ اندازفکر،معروضی انداز سے سوچنا،تجزیہ کرنا اور اس سے نتائج اخذ کرنا اور اسکی تفہیم کرنا سفرنگار کی افتاد کاپختہ حصہ ہے۔اسی اپچ کااظہار ’ہندوکُش کے دامن میں‘کے مطالعے کے دوران ملتاہے۔یہ سطور ملاحظہ ہوں:”متحدہ برصغیر میں سانحہ جلیانوالہ باغ،1857ء کی خونی جنگ آزادی بھی ہے۔مگر دوسری طرف فورٹ ولیم کالج،تاربرقی،لارنس کالج مری،شملہ کاسیاحتی مرکز،ڈاک بنگلے،کشمیر میں جھیل ڈل کے شکارے اور ریلوے کے نظام کے ساتھ ساتھ پنجاپ یونیورسٹی اور سب سے بڑا نہری نظام بھی انہی (گوروں) کامرہون منت ہے۔“
”اگرچہ موجودہ دور میں عیسایت اور اسلام بڑے مذاہب ہیں۔مگر ان میں سے کوئی بھی ابھی وہ عروج نہیں پاسکا جوبدھ مت کوحاصل ہوا۔“
زیر تبصرہ سفر نامہ میں مقولہ نمافقرات جو بہت نپے تلے اور مفاہیم سے بھرپور ہیں۔سفر نامہ نگار کے زبان وبیان پر ارفع عبور کااظہار ہیں۔ایسے فقرات اقوال زریں کی
خوبیوں کے حامل اور چونکا دینے والے ہیں۔مثلاً سڑکوں کے بار بار ٹوٹ پھوٹ اور اکھڑ جانے کے باب میں بیان کرتے ہیں۔”بار بار یہ غازہ اُکھڑ کر اسکی جھریاں نمایاں کردیتاہے۔“
مزید ابواب کے یہ فقرات دیکھیے۔
”اپنے دیس میں اجنبی ہونے کااحساس کسی جہنم زار سے ہزار گنا تکلیف دہ ہے۔“
”اُجلے بہاؤکاارتقا ء تو اجلاہی ہوگا۔“
”کیاوقت کابہاؤ بھی کسی قید کامسافر ہے۔“
”کتے اور بلیاں ہماری ہسٹریائی کفیت پر قہقہے لگاتے ہیں۔“
”بہاو میں ہرشے کی بقاہے۔وقت ہو،زمانے ہوں،دریاہوں یاپھر زندگی۔۔۔۔کسی قید کی زدمیں آکر ختم ہو جاتے ہیں۔
سفرنامہ میں زبان دانی اورتمام ادبی صنعتوں کااستعمال اس سفرنامہ کے اسلوب کومکمل ادبی فن پارہ بناتاہے۔جوادب شناس لوگوں سے لے کر عام قاری تک اپنے دامن میں کچھ نہ کچھ ضرور رکھتاہے۔مواد اور متن کے لحاظ سے دیومالائی اہمیت کی حامل وادی کالاش کے رسم ورواج اور تہوار سے لے کر ایسی نت نئی رسومات کادلچسپ اور ورطہ حیرت میں ڈال دینے والے واقعات ملتے ہیں۔جو واقعتاً پڑھنے، لطف اٹھانے اورمعلومات افزائی کاسبب بنتے ہیں۔بلکہ قاری کے دل میں ان علاقوں کے سفر کی تحریک اور آرزو کوبھی جنم دیتے ہیں۔
ڈاکٹر عبداللہ کے بقول:ایک کامیاب سفر نامہ وہ ہو تا ہے جو جامد و ساکت فطرت کا عکاس نہ ہو بل کہ لمحہ مو جودہ میں آنکھ،زبان،کان اور احساس سے ٹکرانے والی ہر شے،نظر میں سما جانے والا ہر تماشا،نغمہ وصورت کا ہر ر نگ و صورت لفظوں کی امیجری میں جمع ہو کر بیان کو مر قع بہاراں بنا دے۔،اور قاری کوان تمام کے اندر جذب کر کے خود اس مر کب آہینہ گری کا حصہ بن لے۔ جاوید خان کا یہ سفر نامہ ان مزکورہ بالہ محاسن اور خو بیوں کا آیئینہ دار ہے۔اس میں ایک بہتر ین سفر نامہ کا سارا مر غوب خزانہ مو جود ہے۔میری ناقص رائے میں یہ کاوش نہ صرف مقامی سظع بل کہ قومی سطع کے علمی اور ادبی حلقوں میں بھی بھر پور پذ یرائی اور توجہ لازماً حاصل کرے گی۔ مجھے قوی یقین ہے کہ جاوید خان کا یہ سفر نامہ اس صنف کے اوپر عہد مو جود میں قلمبند کئے جانے والے سفر ناموں میں بالخصوص اور اردو میں ابھی تک قلمبند کئے جا نے والے عمدہ سفر ناموں کی فہرست میں بالعموم ضرور شمار ہو گا۔ یہ چترال،وادی کیلاش اور وادی کمراٹ کاسفر نامہ ہے۔اس سفر نامہ کو معروف پبلشنگ ادارہ فکشن ہاوس لاہور نے شائع کیاہے فکشن ہاوس کے اسٹالوں کے علاوہ مقامی بک سٹالز پر بھی دستیاب ہے
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.