عبدالحفیظ شاہد۔ واہ کینٹ
انتہائی نفیس کاغذ ، عمدہ و دیدہ زیب پرنٹنگ ، شاندار ڈبل ٹائیٹل اور 132 بہترین صفحات پر مشتمل “انجانی راہوں کا مسافر” موصول ہوئی۔ ورق گردانی کرتے ہوئے خوشگوار حیرت کا احساس ہوا کہ آج کے مہنگائی کے دور میں بھی اتنی شاندار کتاب پبلش کی جاسکتی ہے۔ گو کہ پیج بلیک اینڈ وائیٹ ہیں لیکن اس کی پرنٹنگ اتنی شاندار ہے دل خوش ہو جاتا ہے۔لیکن آج یقین آگیا کہ ادب کی فصل کو تروتازہ رکھنے والے لوگ بلاشبہ پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے منتظمین جیسے ہوتے ہوں گے۔ جس کے لئے ادارہ اور خاص طور پر جناب ظفر اقبال صاحب بے شمار مبارک باد کے مستحق ہیں۔
کتاب کے مصنف جناب امانت علی صاحب کا تعلق گو کہ انگلش کے ساتھ استوار ہے لیکن جو زبان و بیاں کتاب میں برتا گیا ہے اسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ سر امانت علی صاحب کو تو اردو کا استاد ہونا چاہئے تھا۔
کشمیر کی جنت سے حجازِ مقدس کا سفر کرنے والے معزز مصنف کا سب سے بڑا اعزاز یہ بھی ہے کہ آپ تدریس جیسے مقدس شعبے سے منسلک ہیں۔شستہ انداز میں لکھی گئی منظر نگاری اور تصاویر سے مزین کتاب کی اشاعت پر مصنف کے لئے داد اور سفرنامے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
سفر میں رہنا انسانی زندگی کا بہت اہم خاصہ ہے۔اسی لیے قرآن و حدیث میں سفرکے احکام خاص طور سے ذکر کیے گئے ہیں۔ سفر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں ’’سیرو فی الارض‘‘ کا حکم دے کر سفر کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں حضرت موسیؑ اور حضرت خضرؑ کا سفرنامہ موجود ہے۔ حدیث میں ہجرت یعنی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک کے آپﷺ کے سفر کی تفصیلات اس خوبصورتی سے بیان کی گئی ہیں کہ وہ واقعہ نگاری کا شاہ کار ہیں۔ رسول اللہﷺ نے اپنے آسمانی سفر یعنی واقعہِ معراج کو تفصیل کے ساتھ نہایت خوبصورت اور دلچسپ پیرایہ میں بیان فرمایا ہے، جو یقیناً ایک ادبی شہ پارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ تعلیم و تعلم ، علم و عمل اور سیرو سیاحت کی معلوماتی خوبیوں سے مزین یہ سفر نامہ منظر نگاری سے بھرپور اور زبردست پیرائے میں لکھا جانے والا سفر نامہ ہے جو کہیں سے بھی مصنف کی پہلی کاوش نظر نہیں آتی۔ اس کتاب کو پڑھ کر صاف پتا لگتا ہے کہ مصنف کا صرف مطالعہ ہی بہترین نہیں ہے بلکہ آپ کے پاس لکھنے کی بھی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔
سفرنامہ لکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سیّاح کا مشاہدہ تیز ہو اور تخیل بھی قوی ہو یعنی وہ صاحب بصارت بھی ہو اور صاحب بصیرت بھی، ان صلاحیتوں کے بغیر سفرنامہ لکھنا ممکن نہیں ہے۔مذکورہ سفر نامہ ان ساری خوبیوں سے مزین ہے ماشاء اللہ۔میزبانِ رسول جناب حضرت ابو ایوب انصاری اور جناب جلال الدین رومی کے مزار کی کیفیات پڑھ کر ایسا لگا کہ ہم بھی کہیں مصنف کے ساتھ ساتھ موجود تھے۔
“انجانی راہوں کا مسافر” کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ سفرنا مہ نگار نے سفرنامے کو صرف تاریخی واقعات اور جغرافیہ کے اعداد و شمار سے پُر نہیں کیا ہے بلکہ جغرافیائی کیفیت و تاریخی واقعات کے ساتھ فطری مناظر کے اسرار کی کیفیت بھی مکمل طور پر پیش کیا ہے۔
کتاب “انجانی راہوں کا مسافر ” کا پہلا حصہ اسلامی ثقافت اور تہذیب و تمدن سے زرخیز ملک ترکی کے احوال پر مشتمل ہے۔ ترکی ، دو تہذیبوں کے ملاپ کی بہترین مثال ہے ۔ کرونا کے دوران سلطنت ِ عثمانیہ شاندار تاریخ اور تحریک خلافت کے تاریخی ورثہ سے ساری قوم واقف ہوچکی ہے۔یہ کتاب اور شاندار ماضی کا احوال پڑھتے ہوئے سلطنت ِ عثمانیہ سےبہت زیادہ اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ سفرنامے میں دو براعظموں کے سنگم پر واقع ترکی کے سفرنامے میں ایشیا اور یورپ کا حسیں امتزاج نظر آتا ہے۔آیا صوفیہ جلال الدین رومی کا شہر اور مزار ، فیری لینڈ کا احوال بھی زبردست انداز میں لکھا گیا ہے۔
سفرنامے کا دوسرا حصہ براعظم افریقہ کی داستان پر مشتمل ہے۔ اس حصے کی سب سے بڑی خوبصورتی اسلام آباد اور کراچی کے احوال کا ذکر ہے۔ اندرون شہر کا احوال ہمارے شہروں سے موازنہ کرنے کے لئے بہترین پیمانہ ہے۔اس کے علاوہ کینیا کے مشہور مقامات اور براعظم افریقہ کی ثقافت ، تاریخ اور موسیقی کی معلومات سے سجا یہ سفرنامہ ایسی بہترین معلومات اور تصاویر پر مشتمل ہے جن سے نہ صرف سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ مصنف قارئین کو بھی اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے۔
آخر میں جناب ظفر اقبال کا مشکور ہوں کہ آج کے گرانی کے دور میں بھی آپ ادب کی ترویج کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہیں۔ سلامت رہیں
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.