جی ایم میر(حالاتِ زندگی، شخصیت،جدوجہد اور خدمات) تحریرو تحقیق: محمد سعید اسعد

You are currently viewing جی ایم میر(حالاتِ زندگی، شخصیت،جدوجہد اور خدمات) تحریرو تحقیق: محمد سعید اسعد

جی ایم میر(حالاتِ زندگی، شخصیت،جدوجہد اور خدمات) تحریرو تحقیق: محمد سعید اسعد

تحریرو تحقیق: محمد سعید اسعد(میرپور)

               ریاست جموں کشمیر کے ممتا زمؤرخ، محقق، دانشور، تجزیہ نگار، مصنف، آزادی پسند رہنما اور نظریہ خود مختار کشمیر کے علم بردار جناب غلام محمد میر المعروف جی ایم میر طویل علالت کے بعد ایبٹ آباد میں اپنی بیٹی کے ہاں 29 اپریل 2021ء بروز جمعرات 16رمضان المبارک کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

               اس خبر کے سنتے ہی صرف ریاست جموں کشمیر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں آباد لاکھوں وہ کشمیری غم واندوہ میں ڈوب گئے جو موصوف کے قومی ملی اور علمی و فکری کردار سے آگاہ تھے۔

               جی ایم میر گذشتہ کئی برسوں سے صاحب فراش تھے اور ان کی زندگی محض اپنی بیٹی کے گھر کی چار دیواری تک سمٹ کر رہ گئی تھی۔ اس لیے گذشتہ کئی بروسوں سے وہ سیاسی سماجی اور تحریکی سرگرمیوں سے قطع تعلق ہو چکے تھے۔ عمر دراز کی 93 بہاریں دیکھنے والے جی ایم میر 1929ء کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مردم خیز خطہ ڈورو شاہ آباد میں پیدا ہوئے۔ کشمیری زبان و ادب کے شہرہ آفاق شاعر محمود گامی بھی اسی قصبہ کے تعلق رکھتے تھے۔ میر صاحب نے ابتدائی تعلیم و تربیت مقامی سطح پر حاصل کی اور لڑکپن میں وہ اپنے والد کے ہمراہ بسلسلہ روزگارلکھنؤ چلے گئے۔ لکھنؤ کے علمی و ادبی ماحول نےاس نوجوان پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ۔ لکھنؤ کی علمی وادبی بادِ بہاری کے ساتھ ساتھ وہاں کی تحریک پاکستان کے سلسلے میں جاری مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں نے بھی غلام محمد میر کو دو آتشا بنا دیا۔یہ والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بھی بٹاتے رہے اور اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جید اساتذہ کرام کی زیرِ نگرانی جاری رکھا۔

ترقی پسند تحریک کے رہنمائوں کی صحبت

               تقسیم برعظیم کے دنوں میں وہ اپنے والد کے ہمراہ لاہور آگئے اور قیام پاکستان کے جوش و جنون میں مہاجرین کی آباد کاری کے لیے ایک رضا کار کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعددن بدن پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی ابتری سے وہ مایوس ہو گئے۔ اور انھوں نے لاہور میں ترقی پسند تحریک کے سرکردہ رہنمائوں فیض احمد فیض، طاہرہ مظہر علی اور ابو سعید انور کی صحبت میں بیٹھنا شروع کیا۔ فکر معاش کے سلسلے میں ان کا رابطہ باٹا شو کمپنی سے ہوا جہاں انھیں ملازمت مل گئی۔ کچھ عرصہ بعد کمپنی نے آفر کی کہ وہ ایبٹ آباد میں کمپنی کی فرنچائز پر مینیجر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ چنانچہ انھوں نے اس آفر کو قبول کر لیا اور 1953 میں ایبٹ آباد چلے آئے۔ ان کے والد کو اپنے وطن کی یاد نے ستایا تو وہ واپس بھارتی مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ ایبٹ آباد میں جی ایم میر کی ملاقات ماسٹر محمد مقبول سے ہوئی جو بھارتی مقبوضہ کشمیر کےضلع کپواڑہ سے ہجرت کر کے یہاں آن بسے تھے۔

               1958ء میں جب مقبول بٹ اپنے چچا عبدالعزیز کے ہمراہ بھارتی مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آئے اور پشاور میں اپنے چچا کے ساتھ سکونت اختیار کی تو ایبٹ آباد ان کا اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ چنانچہ ماسٹر مقبول صاحب کی وساطت سے جی ایم میر اور مقبول بٹ کی ملاقات ہوئی۔ مقبول بٹ ان دنوں باریش نوجوان تھے۔ پشاور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ سیاست میں متحرک ہوئے اور 1961ء میں آزاد جموں کشمیر کے پہلے بلدیاتی انتخابات میں انھوں نے پشاور شہر سے مہاجرین کی سیٹ پر الیکشن لڑا اور بحیثیت بی ڈی ممبر کامیاب ہو ئے۔ انہی بی ڈی ممبرز نے جب صدرِ آزاد کشمیر کے پہلے انتخاب میں حصہ لیا تو مقبول بٹ نے کے ایچ خورشید کا ساتھ دیا ۔ جی ایم میر نے بھی ان انتخابات میں متحرک کردار ادا کیا اور کے ایچ خورشید کی حمایت کی۔ کے ایچ خورشید کے خیالات اور نظریات سے ہم آہنگی نے انھیں سیاستمیں متحرک کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ کراچی سے مہاجرین کی نشست پر کامیاب ہونے والے سٹیٹ کونسلر جی ایم لون بھی چونکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھتے تھے اسی لیے لون صاحب ،مقبول بٹ اور جی ایم میرکے آپس میں گہرے مراسم قائم ہوگئے۔انتخابی مہم میں بھی انھیں صوبہ سرحد میں مختلف مقامات پر جانے اور ووٹرز سے رابطہ کرنے کا موقع ملا

               صدرِ پاکستان جنرل ایوب خان کے زمانے میں پاکستان اور بھارت نے آپسی جھگڑے اور تنازعات حل کرنے کے لیے کچھ لو اور کچھ دو (Give and take) کا اصول اپنایا ۔ کشمیری عوام کے تسلیم شدہ حقِ خودارادیت سے ہٹ کر اسے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں 1960ء کو سندھ طاس معاہدہ ہوا جس میں پاکستان نے کشمیر کے دریائوںپر بھارت کا حق تسلیم کر لیا۔ پھر وزرائے خارجہ کی سطح پر بھٹو ، سورن سنگھ مذاکرت کے کئی دور ہوئے۔ ان مذاکرات میں باضابطہ طور پر کشمیر پر قابض دونوں ممالک نے تقسیم کشمیر کو مسئلہ کا حل قراردیا۔ وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں ریاست جموںکشمیر کے نقشے پر دریائے جہلم کا منبع پونچھ کی حدود میں تلاش کیا جاتا رہا۔ جب یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو ایک طرف کشمیر کے جھوٹےدعوےداروں کی کشمیر کے بارے علمیت کا پول کھل گیا اور دوسری طرف محبِ وطن کشمیریوں کو بھی کچھ کر گزرنے کی تحریک ملی ۔ اس واقعہ نے جی ایم میر کو کشمیر کے لیے قلمی محاذ پر کردار ادا کرنے اور حقائق کو سامنے لانے کی تحریک پیدا کی۔ چنانچہ انھوں نے جموں” کشمیر کی جغرافیائی حقیقتیں ” کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا جس کے بعد ازاں کئی اضافہ شدہ ایڈیشن شائع ہوئے اور بل آخر یہ کتاب ریاست جموں کشمیر کے جغرافیے پر ایک مستند کتاب کا درجہ حاصل کر پائی۔

               10 جنوری 1966ء کو تاشقند کے مقام پر جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور صدر پاکستان ایوب خان کے مابین دس روزہ مذاکرات کے نتیجہ میں معاہدہ تاشقند ہوا جس میں بھارت کا پلہ بھاری رہا اور پاکستان اپنے موقف(کشمیریوں کے حق خودارادیت )سے دست بردار ہو گیا

۔ محاذ رائے شماری

               1955ء میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مرزا افضل بیگ کی کوششوں سے محاذ رائے شماری کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی تھی جس نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے حق خود ارادیت کو ہی حتمی اصول قرار دیا تھا۔ اس سے قبل ڈان ہوٹل راولپنڈی کے مقام پر 12 مئی 1963ء کو کشمیری رہنمائوں کے ایک نمائندہ اجتماع میں کشمیر انڈی پنڈنس کمیٹی قائم کی گئی جس نے تقسیم ریاست کی سازشوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک آزاد اور خود مختار کشمیر کو مسئلہ کا حتمی حل قرار دیا۔ اس کمیٹی کے کنوینئر جی ایم لون تھے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں قائم محاذ رائے شمارے کی مطابقت میں آزاد کشمیر و پاکستان میں بھی محاذ رائے شماری کا قیام عمل میں لانے کا فیصلہ ہوا۔ چنانچہ5،4 اپریل 1965ء کو سیالکوٹ کے مقام پر میر عبدالمنان(کنوینئر)کی زیرِ صدرات منعقد کیے گئے ایک نمائندہ اجتماع میں محاذ رائے شماری کا قیام عمل میں لایا گیا۔ محاذ کے رہنمائوں نے سوچیت گڑھ کے مقام پر NO MEN’S LANDسے مادرِ وطن جموں کشمیر کی مٹی ہاتھ میں لے کر حلف اٹھایا کہ وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے۔ اس نمائندہ اجتماع میں جی ایم میر بھی شریک تھے اور محاذ کی سنٹرل کمیٹی کے ممبر نامزد ہوئے۔

               1965ء کی جنگ کے نتیجے میں سامنے آنے والی صورت حال نےباشعور کشمیریوں کےخدشات کو درست ثابت کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ پھلایا کہ کشمیری خود کچھ نہیں کرتے اور دوسروں سے توقع رکھتے ہیں۔ آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کا ملبہ بھی کشمیریوں پر ڈالا گیا۔13 اگست 1965ء کو محاذ رائے شماری کے کچھ راہنمائوں نے جن میں امان اللہ خان ، میر عبدالقیوم ، محمد مقبول بٹ اور میجر امان اللہ شامل تھے پشاور کے مقام پر ایک میٹنگ میںمحاذ کے عسکری ونگ این- ایل- ایف (نیشنل لبریشن فرنٹ ) کی بنیاد رکھی تاکہ تحریک آزادیٔ کشمیر کو مسلح بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ اسی نظریہ کے تحت 10 جون1966ءکو مقبول بٹ کی زیر قیادت دو مسلح گروپ وادی نیلم کے گائوں دودنیال سے جنگ بندی لائن عبور کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو گئے اور بھارت کے خلاف گوریلہ جنگ کاآغاز کیا۔مقبول بٹ کا ایک ساتھی اورنگزیب ایک جھڑپ میں شہید ہو گیاجبکہ انہیں میر احمد کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔

محاذ رائے شماری ہزارہ ڈویثرن

               1968میں مقبول بٹ اپنے دو ساتھیوں میر احمد اور چوہدری یاسین کے ہمراہ سری نگر جیل سے فرار ہو کر مظفرآباد پہنچے تو انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا ۔انکی رہائی کے لیے مارچ 1969میں محاذ رائے شماری میں صدر ہائوس راولپنڈی کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرے کا انتظام کیا۔ یہاں ایک گول میز کانفرنس ہو رہی تھی جس میں مشرقی و مغربی پاکستان کی جملہ سیاسی قیادت مدعو تھی۔شیخ مجیب الرحمن کو بھی جیل سے رہا کر کے لایا گیا تھا۔اس موقع پر کشمیریوں کا مقبول بٹ اور انکے ساتھیوں کے لیے رہائی کا یہ مظاہرہ موثر ثابت ہوا اور چند ہی روز میں انہیں رہا کر دیا گیا۔اس مظاہرے میں جی ایم میر بھی پیش پیش تھے۔رہائی پانے کے بعد مقبول بٹ اپنے بہنوئی ماسٹر مقبول کے گھر ایبٹ آباد چلے گئے ۔دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہوئے ،انہوں نے جی ایم میر کو محاذ رائے شماری ہزارہ ڈویثرن کا کنوینئرمقرر کیا۔ نومبر 1969میں مظفرآباد کے مقام پر محاذ رائے شماری کا کنونشن منعقد ہوا جس میں مقبول بٹ کو محاذ کا مرکزی صدر مقرر کیا گیا۔ انہوں نے مسلح جدوجہد کے نظریے کو خوب متعارف کروایا۔

               محاذ رائے شماری نے گلگت بلتستان کے سیاسی و عوامی حقوق کے لیے ہفتہ گلگت بلتستان منانے کا اعلان کیا۔ مختلف پروگرام ترتیب دیے گئے۔ اس سلسلے کا آخری پروگرام یہ تھا کہ محاز کی قیادت گلگت جا کر وہاں ایک بڑے جلسئہ عام کا اہتمام کرے گی۔ اس سلسلہ میں جی ایم میر سمیت عبدالخالق انصاری اور مقبول بٹ کی قیادت میں محاذ کے مرکزی راہنما گلگت جانے کے لیے راولپنڈی ایئر پورٹ پر پہنچے تو عبدالخالق انصاری کو اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا کہ انہوں نے یہ کیوں کہا ہے کہ” گلگت بلتستان یحییٰ خان کےباوا کی جاگیر نہیں ہے” ۔انہیں ایبٹ آباد جیل منتقل کیا گیا اور ملٹری کورٹ میںان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا۔

گلگت بلتستان

               1970میں مقبول بٹ، میر عبدالمنان، پیرزادہ غلام مصطفیٰ علوی اور جی ایم میر پر مشتمل محاذ کے راہنما گلگت بلتستان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہاں گلگت پولو گرائونڈ میں جلسے کا پروگرام ترتیب دیا تو انتظامیہ نے گرائونڈ کے تمام مین گیٹس کو تالے لگا دیئے۔ اور محاذ کے راہنمائوں کو گلگت چھوڑنے کے لیے نوٹس جاری کر دیا۔ اس نوٹس میں لکھا تھا کہ آپ لوگوں کی یہاں سرگرمیوں کے نتیجے میں نقصِ امن کا خطرہ ہے اور لوگوں میں ہیجان اور اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ احمد سعید نامی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے یہ نوٹس جاری کیا گیا تھا۔محاذ کے راہنمائوں نے ایک دورے کے دوران مختلف مساجد میں نماز ادا کرنے اور نمازیوں کو انکے سیاسی حقوق کا احساس دلانے کا پروگرام بنایا چنانچہ چاروں راہنمائوں نے آپس میں دو گروپ تشکیل دیے۔ ایک گروپ میں مقبول بٹ اور میر عبدالمنان شامل تھے جبکہ دوسرے گروپ میں جی ایم میر اور پیرزادہ غلام مصطفیٰ علوی شامل تھے۔ بقول جی ایم میر ” نمازی حضرات کو جب ہم بتاتے کہ ہم کشمیر سے آئے ہیں اور نماز کے بعد آپ سے کوئی ضروری بات کریں گے تو وہ بڑی توجہ اور شوق سے ہماری بات سنتے اور جب تک ہم بات ختم نہ کرتے وہ اٹھ کر نہ جاتے”۔

               یہ راہنما پولو گرائونڈ میں جلسے کے اشتہار اپنے ہاتھوں سے چسپاں کرتے تو لوگوںکا ہجوم وہاں جمع ہو جاتا اور وہ بڑے انہماک اور توجہ سے اس اشتہار کو پڑھتے۔ محاذ کے ان راہنمائوں کی سرگرمیوں پر انتظامیہ کڑی نظر رکھے ہوئے تھی چنانچہ پولو گرائونڈ کے جلسے سے ایک رات قبل انھیں گرفتار کر کے گلگت سکاؤٹس کے کوارٹر گارڈ میں بند کر دیا گیا۔ رمضان کا مہینہ تھا،افطاری کا وقت قریب تھا۔ایک صوبیدار نے ان قائدین کی جیبوں سے قلم ،نقدی اور دیگر کاغذات وغیرہ لے لیے اور کمرے میں بند کر کے تالہ لگا دیا۔ ایک ایس ایچ او تردی بیگ نے افطاری کا اہتمام کیا اور کھانا کھلایا۔رات بھر لاک اپ میں رکھا گیا۔ صبح سحری کروائی اور دن دس بجے کے قریب چاروں راہنمائوں کو ائیر پورٹ پر لا کر زبردستی جہاز میں سوار کر کے واپس راولپنڈی بھیج دیا۔ محاذ کے راہنمائوں کو کئی بار گلگت بدر کیا گیا اور اٹھا کے دور درازیاغستان کے جنگلوں میں پھینک دیا گیا۔

               30جنوری 1971کو سری نگر کے دو نوجوانوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے بھارتی بوئنگ طیارہ گنگا اغوا کیا تو اس کے نتیجے میں محاذ رائے شماری کے قائدین و کارکنان پر جبر و تشدد کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ 28اپریل1971کو جماعت کے بیشتر سینئر راہنما گرفتار کر لیے گئے ۔میرپور سے صوفی محمد زمان اور ایبٹ آباد سے جی ایم میر گرفتار نہ ہو سکے چنانچہ ان راہنمائوں نے جماعت کی ایک عبوری کابینہ تشکیل دی جس کے صدر صوفی محمد زمان اور جنرل سیکرٹری جی ایم میر تھے۔ جلسے جلوس اور اجتماع پر پابندی تھی۔ خطوط لکھنے اور انڈر گرائونڈ اپنے موقف کے حق اور اسیران کی رہائی کے لیے عبوری کابینہ نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ یہ راہنما ذوالفقار علی بھٹو اور ائیر مارشل نور خان سے بھی ملے اور انھیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا ۔پاکستان کے دونوں راہنمائوں نے انھیں اپنی حمایت کا یقین دلایا ۔بھٹو نے اقتدار ملنے کے بعد محاذ کے راہنمائوں کو رہا کرنے کییقین دہانی کرائی۔یہ ملاقات سرگودھا میں شیخ ظہیر الدین کے گھر پر ہوئی تھی۔

مظفرآباد سے گرفتاری

               26اگست1971کو جی ایم میر کی مظفرآباد سے گرفتاری عمل میں آئی۔ اور انہیں دلائی کیمپ میں قید کر دیا گیاجہاں صوفی محمد زمان ،ممتاز ہاشمی اور صابر انصاری کو بھی لایا گیا تھا۔ وہاں ایک غیر کشمیری شیر علی بھی قید تھا۔35دن دلائی کیمپ میں بند رکھنے کے بعد انھیں مظفرآباد جیل منتقل کر دیا گیا۔ پیرزادہ غلام مصطفےٰ علوی اور عبدالخالق انصاری بھی اسی جیل میں تھے۔ ان سب راہنمائوں کو جیل کے زنان خانے میں رکھا گیا۔ یوسف زرگر اور ارشاد بچھ بھی وہاں لائے گئے۔جسٹس یعقوب علی اور جسٹس عبدالقادر شیخ پر مشتمل خصوصی عدالت میں کیس چلا۔

               گنگا کیس سے رہائی حاصل کرنے کے بعد جی ایم میر نے جماعت کے پلیٹ فارم سے نہایت متحرک کردار ادا کیا۔ باٹا کمپنی کی ملازمت چھوٹ چکی تھی۔ اپنی گزر بسر کے لیے وہ ٹھیکیداری کا کام کرنے لگے۔ اس عرصے میں محاذ کا لٹریچر اور محاذ کی زیادہ تر رپورٹس ان کی ہی قلم بند کردہ ہیں۔ انہوں نے ” وادی کی آواز” کے عنوان سے 56صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ ترتیب دیا جس میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے محاذ رائے شماری کے سری نگر میں منعقدہ کنونشن 5,6,7 جولائی 1974کی روئیداد شائع کی اور کشمیری قیادت کے مابین پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی کیونکہ ان دنوں بھارت اور پاکستان کا سرکاری میڈیا کشمیری لیڈروں کے مابین غلط فہمیاں پھیلانے میں مصروف تھا۔

               اب جی ایم میر مستقلاً میرپور میں رہائش پذیر ہوئے ۔انہوں نے مقبول بٹ کے بیٹوں شوکت مقبول اور جاوید مقبول کی تعلیم و تربیت میں بھی سرپرستی اپنے ذمے لی اور ان بچوں کو باپ کی شفقت عطا کی۔

               1976میں مقبول بٹ کے دوبارہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اپنے دو ساتھیوں ریاض ڈار اور حمید بٹ کے ہمراہ داخل ہونے سے محاذ رائے شماری کی قیادت انتشار کا شکار ہو گئی اور محاذ نے ایک قرارداد کے ذریعے مقبول بٹ سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ جس سے انتشار و خلفشار بڑھا اور محاذ رائے شماری جیسی مقبول عام اور منظم جماعت کا شیرازہ بکھر گیا۔

نیشنل لبریشن فرنٹ

               مئی 1989میں محاذ رائے شماری سے الگ ہونے اور نظریہ خودمختار کشمیر پر یقین رکھنے والے کچھ حضرات کی کاوشوں سے نیشنل لبریشن فرنٹ NLFکے نام سے دوبارہ ایک سیاسی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کے صدر جی ایم میر اور جنرل سیکرٹری شوکت مقبول بٹ بنائے گئے۔اس عرصے میں جی ایم میر نے اپنی جماعتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ قلم و فکر کے محاذ پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کی۔ سٹڈی سرکلز کا اہتمام ،تربیتی و فکری اجتماعات اور لٹریچر کی تیاری میں وہ منہمک ہو گئے۔ انھوں نے ” کشمیر سٹڈیز ” کے سلسلے میں مختلف عنوانات پر بہت سے گراں قدر اور معلوماتی مقالات لکھے جنھیں اخبارات و رسائل میں شائع کروانے کے علاوہ چھوٹے چھوٹے کتابچہ جات کی صورت میں لاہور ،میرپور اور کراچی برانچ کی طرف سے شائع کیا جاتا رہا۔

               جموں کشمیرنیشنل لبریشن فرنٹ کو انہوں نے ایک سیاسی جماعت سے زیادہ ایک نظریاتی اور فکری ادارے کے طور پر چلانے کی کوشش کی۔اس کی برانچز یو کے میں بھی قائم کی گئیں۔ جی ایم میر کئی بار برطانیہ یورپ اور امریکہ تشریف لے گئ اور وہاں پر بھی اپنی تحریکی و تنظیمی سرگرمیاں جاری رکھیں۔1993ء میں بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں منعقدہ کشمیر کانفرنس میں انہیں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا جہان انھوں نے کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کیا۔1990ءمیں آزاد کشمیر کی عدالت عالیہ میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے بارے میں جب رٹ دائر کی گئی تو NLFکے صدر کی حیثیت سے جی ایم میر نے ایک گراں قدر تحقیقی مواد پر مشتمل اپنا تحریری بیان عدالتِ عالیہ میں پیش کیا جسے بعد ازاں جموں کشمیر کا شمالی صوبہ گلگت بلتستان کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ اس کیس میں آزاد کشمیر کی دیگر جماعتوں سے بھی بیانات لیے گئے۔

تصانیف

               بالآخرپیرانہ سالی کے سبب جی ایم میر جماعتی صدارت سے علیحدہ ہو گئے اور NLFکا صدر شوکت مقبول بٹ کو بنا دیا گیا۔ اب جی ایم میر نے اپنی تمام تر توجہ قلمی محاذ پر مرکوز کر لی اور شب و روز کی محنت کے بعد انہوں نے گراں قدر تصانیف مرتب کیں جن میں حسب ذیل کتب نمایاں ہیں۔

1۔کوہستان قرارقرم سے بحر ِقزوین تک۔              

2۔شاہراہ آزادی۔      

3۔چین اور کشمیر۔

4۔گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت۔

5۔دستِ جفاکیش۔

6۔کشمیری قوم اپنے منزل کی تلاش میں۔

7۔کیا مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔   

8۔کشمیر شناسی (جلد اوّل)۔

9۔منگلا ڈیم کی کہانی ،کشمیری عوام کا افسوسناک استحصال ۔            

10۔امن کی آشا اور کشمیر۔                   

11۔کشورِ کشمیر کی 5ہزار سالہ تاریخ ۔

12۔مسقبل کا کشمیر۔

13۔ جموں کشمیر کی جغرافیائی حقیقتیں۔

               جی ایم میر کی جن دو کتابوں کوزیادہ مقبولیت ، شہرت و پذیرائی حاصل ہوئی ان میں” جموں کشمیر کی جغرافیائی حقیقتیں ” کے ترامیم اور تبدیلیوں کے ساتھ 6ایڈیشن شائع ہوئے۔ جبکہ تاریخ کشمیر کے موضوع پر ا ن کی کتاب” کشور کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ” کے دو ایڈیشن شائع ہوئے۔ یہ کتب ان کے ایک دوست مکتبہ رضوان میرپور کے مالک ممتاز ہاشمی صاحب نے شائع کیں جو خود بھی ایک بڑے عالم اور سکالر تھے۔

               جی ایم میر گزشتہ کئی برسوں سے مختلف عارضوں کا شکار تھے۔ان کی قوت سماعت و قوت گویائی ختم ہو چکی تھیں۔ یادداشت کھو بیٹھےتھے اورچلنے پھرنے سے عاجز تھے۔ اسلیے میرپور سے ترکِ سکونت کر کے وہ ایبٹ آباد میں اپنی بیٹی کے ہاں رہائش پذیر تھے۔ بالآخر عمرِ عزیز کی 93بہاریں دیکھنے کے بعد 29اپریل2021کو رمضان المبارک کے مہینے میں بروز جمعرات اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں میرپور میں دفن کیا جائے لیکن ان کے اہل خانہ نے انھیں ایبٹ آباد میں دفن کر دیا ۔ ان کی اولادِ نرینہ نہیں تھی دو بیٹیاں وارث ہیں،ایک ایبٹ آباد اور دوسری امریکہ میں۔

               جی ایم میر کی قلمی کاوشوں نے کشمیر کی نئی نسل کو اپنی تاریخی شناخت اور پہچان کا شعور عطا کیا۔ وہ زندگی بھر جدوجہدآزادی کے سیاسی ،فکری اور قلمی محاذ پر سرگرداں رہے اور جب تک ان کے قویٰ کام کرتے رہے انہوں نے انتھک محنت کر کے گراں قدر تحقیقی ورثہ یادگار چھوڑا۔اس ورثہ کو نئی نسل تک منتقل کرنا بے حد ضروری ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.