جھوٹ بکھرا کہیں پڑا ہوتا
سچ کا بازار جب سجا ہوتا
اعلیٰ عہدہ بھی مل گیا ہوتا
فیصلہ وقت پر لیا ہوتا
ایسے عہدے سے فائدہ کیا ہے
اس کو پہلے ہی رد کیا ہوتا
نام کے پیچھے سارا جگ بھا گے
راز کیا اس میں ہے چھپا ہوتا
میں سمجھنے سے اس کو قاصر ہوں
گر اسے خود سمجھ لیا ہوتا
نام کا ہوتا ہے نشہ جو بھی
وہ نشہ سر پہ چڑھ گیا ہوتا
ظرف رکھتا نہ جی حضوری کا
حوصلہ اس کو مل گیا ہوتا
جیت سچ کی ہی ہو گئی ہوتی
جھوٹ کا سر قلم کیا ہوتا
زیست اپنی مزاج بھی اپنا
زندگی اپنی جی رہا ہوتا
شاذؔ دیوانگی میں کہتا ہے
کاش بن باس لے لیا ہوتا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.