*سانسوں کی اُلجھی ۔ اُلجھی پہیلی میں قید ہے*

*ہر شخص زندگی کی حویلی میں قید ہے ۔*

*میں نے حنا سے نام لکھا تھا کبھی ترا*

*خُوشبوء عشقَ اب بھی ہتھیلی میں قید ہے ۔*

*دلّی گئی میں جب تو مِرا دِل دھڑک اٹھا*

*کیسے کہوں کہ دِل یہ بریلی میں قید ہے ۔*

*تتلی کے پر کو دیکھ کے میں سوچتی رہی*

*دُنِیا کی دِل کشی اِس اکیلی میں قید ہے ۔*

*بھونرا فدا ہے سب پہ کہ اُس کی خوشی فقط*

*چمپا میں قید ہے نہ چمیلی میں قید ہے۔*

*”عطیۃ” کو اپنی جان وہ کہتا تھا کل مگر*

*اب اُس کی جان، اُس  کی سہیلی میں قید ہے ۔*

عطیہ نور ۔

پریا گ راج

اُتَر پردیش


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content