ہر کسی کے دامن میں ہر خوشی نہیں ہوتی
زندگی سبھی کی تو زندگی نہیں ہوتی
بولتے ہیں لوگوں سے جو خدا کے لہجے میں
ان سے میرے جیسوں کی دوستی نہیں ہوتی
آدمی سے جینے کی چاہ چھین لیتی ہے
بے ضرر کبھی بھی یہ مفلسی نہیں ہوتی
دل دکھانے والے بھی لوٹ کر چلے آئیں
میرا ظرف ایسا ہے بےرخی نہیں ہوتی
یہ وفا کی راہیں ہیں یاد رکھنا ان پر سے
جان سے گزرنے تک واپسی نہیں ہوتی
ان کے دل وفاؤں کی لاج رکھ نہیں پاتے
جن کی بھی طبیعت میں سادگی نہیں ہوتی
درد سے ترا ملنا اس لیے ضروری تھا
چوٹ کے بنا ماہم آگہی نہیں ہوتی
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.