سیکھنے کا رویہ اور حسن سلوک/ تحریر ماہ نور جمیل عباسی

You are currently viewing سیکھنے کا رویہ اور حسن سلوک/ تحریر ماہ نور جمیل عباسی

سیکھنے کا رویہ اور حسن سلوک/ تحریر ماہ نور جمیل عباسی

تحریر: ماہ نور جمیل عباسی

کسی بھی جاندار  کے دنیا میں آنے کے ساتھ ہی اللّٰہ سبحان و  تعالیٰ نے اُسے کئی طرح کی نعمتوں سے نوازا ہوتا ہے۔  ان میں سے ایک نہایت ہی اہم نعمت مختلف” رویوں” کی شکل میں ہوتی ہے جاندار دنیا میں آ تے ہی کچھ کام ایسے کرتا ہے جن کی صلاحیت  اللّٰہ تعالیٰ نے جینیاتی طور پر اسے عطا کی ہوتی ہے   اور کچھ رویے ایسے ہوتے ہیں جو انسان اپنی عملی زندگی میں سیکھتا ہے مثال کے طور پر جب بچہ دنیا میں آتا ہے تب بھوک لگنےپر اس کا رونا ایک قدرتی عمل ہے جو جینیاتی طور پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا تحفہ  ہوتا ہے۔ ایک ماں کے اندر اس کے بچے کے لئے محبت اس کوسکھائی نہیں جاتی بلکہ خدا تعالیٰ نے اس کے اندر یہ خوبصورت احساس رکھا ہوتا ہے۔ مرغی کے بچے کو جب کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تب وہ اپنی ماں کے آنچل میں چھپ جاتا ہے یہ صلاحیت بھی اس نے کسی سے سیکھی نہیں بلکہ قدرت کاتحفہ ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا اختیار خدائے ذوالجلال نے ہمیں دیا ہوتا ہے اور انہیں اختیارات کو سائنسی علم میں سیکھنے کا رویہ  کہتے ہیں۔یہ ایسا رویہ ہے جو انسان بیرونی دنیا سے سیکھتا ہے۔  مثال کےطور پر بازاری کتا  ایک شور و غل والے ماحول  میں زندگی بسر کرتا ہے اور پالتو کتا خاموش اور پر سکون ماحول میں بازاری کتے کے سامنے کئی گاڑیاں گزرتی ہیں لیکن وہ ان سے خوفزدہ نہیں ہوتا اس کے بر عکس پالتو کتا گاڑیوں کو دیکھ کرکو سوں دور چلا جاتا ہے۔ دونوں کے اندر یہ فرق ان کے ماحول کی وجہ سے آیا۔ بالکل یہی حال ہمارے ارد گرد موجودانسانوں کا بھی ہے، انسان جو کچھ سیکھے گا وہی دوسروں تک پہنچائے گا۔  مثال کے طور پر اگر کوئی اوباش شخص کسی دوسرے شخص کو گالی دے، اب  دوسرے شخص کا رد عمل اس کی تربیت کے مطابق ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک جذباتی اور جوشیلے خاندان کا سپوت ہو اور ایک گالی کے بجائے دس گالی دے یا تو درگزر کرے اور ایک مہذب اورباوقار فرد ہونے کاثبوت پیش کرے۔ ہمارے معاشرے میں بھی کئی ایسے لوگ ہیں جن کا وقت  ایک ناخوشگوار ماحول میں گزرا ہےجہاں  انہوں نے وہ رویے  سیکھے  جو ان کے آس پاس رکھے گئے  اور اب وہی رویہ وہ دوسروں تک پہنچا رہے ہیں۔ ایسے افراد کے لئے معاشرے میں کوئی خاص جگہ نہیں ہوتی-  ان سے الجھنے اور وقت ضائع کرنے کے بجاۓ ان کی باتوں کو درگزر کرنا ہی عقل مندی  اور معقول انسانی رویہ ہے ۔ بقول شاع

پھولوں سے محبت ہے تقاضائے طبیعت 

کانٹوں سے الجھنا تو نہیں کام ہمارا 

 (کلیم عاجز)


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.