تحریر۔حمادرضا
زمانہ قدیم سے ہی انسان اپنی غذائی ضرویات کو پورا کرنے کے لئیے جانوروں اور پرندوں کا شکار کرتا آیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے شکار کرنا پہلے انسان کی ضرورت ہوا کرتی تھی اور بعد میں اس نے شوق کی شکل اختیار کر لی اور بے دریغ جنگی حیات کا صفایا کرنا شروع کر دیا اب حالات اس نہج پر آ پہنچے ہیں کہ بہت سی جنگلی حیات پاکستان میں نا پید ہو چکی ہے اور بہت سی نسل کشی کے آخری دہانے پر پہنچی ہوئی ہیں پاکستان جیسا ملک جہاں پر جنگلات پہلے ہی پانچ فیصد سے کم رہ گئیے ہیں یعنی جنگلی حیات کے مسکن کے لئیے انتہائ کم جگہہ بچی ہے وہیں پر رہی سہی کسر بے دریغ اور غیر قانونی شکار نے نکال دی ہے گزشتہ دس سالوں میں غیر قانونی شکار کی شرع ملکی بلند ترین سطح پر رہی ہے یعنی پاکستان بننے سے لے کر اب تک سب سے زیادہ جنگلی حیات کو نقصان گزشتہ دس سالوں میں ہی پہنچا ہے غیر ملکی اور جدید قسم کی ائیر گنز کی موجودگی نے اس کام کو اور بھی سہل کر دیا ہے سائیبیریا سے ہجرت کر کے آنے والے پرندے اب بھارت میں اترنا پسند کرتے ہیں اور جو گنے چنے پاکستان پہنچتے ہیں وہ شکاریوں کی بے حسی کا نشانہ بن جاتے ہیں کچھ عرصہ سے پنجاب میں ائیر گن سے شکار پر مکمل پابندی عائد کی جا چکی ہے لیکن شکاریوں نے ابھی تک اس پابندی کو ہوا میں اڑایا ہوا ہے ہمیں اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے ہی کچھ سبق حاصل کرنا چاہئیے جہاں اسی کی دہائی سے ملک میں ہر قسم کے شکار پر پابندی عائد ہے پاکستان کو بھی اس حوالے سے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے تا کہ معدوم ہوتے پرندوں کو اپنی اگلی نسل کے لئیے بچایا جا سکے ۔
: مختصر تعارف
میرا نام حمادرضا ہے میں ایک کالم نگار اور ڈائجسٹ رائٹر ہوں نئیے افق میں تواتر سے لکھتا ہوں بچوں کی بہت ساری کہانیاں لکھ چکا ہوں جو کرن کرن روشنی روزنامہ اوصاف روزنامہ اساس کے ساتھ ساتھ بچوں کے دیگر رسائل کی زینت بن چکی ہیں میری شاعری پر مشتمل کتاب خیال دو ہزار سات میں شائع ہو چکی ہے ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.