تحریر: فہد علی کاظمی۔
ہمالیائی کشمیر اپنے جغرافیہ کے لحاظ سے بہت بدنصیب ہے کہ اس کے جنوب میں دنیا کا گنجان ترین میدانی برصغیر ہے جہاں انسانی و صنعتی سرگرمیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے تمام آلودہ مادے اور حدت ہمالیائی سلسلہ پر منتہج ہوتے ہیں۔ انسانی آبادیوں کے بے ہنگم پھیلاؤ اور فطرت دشمن عوامل نے ہمالیہ صغیر کے ان تمام جنگلات کا صفایا کر دیا ہے جو جنوب سے آنے والی شعاعوں کیقوت اور گرین ہاؤس گیسوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ نتیجتاً میدانوں میں گرمی کے چند دن بھی ہمالیہ صغیر پر قہر بن کر ٹوٹتے ہیں کیونکہ ان کے مابین کوئی فطری بفر زون باقی نہیں رہا۔ کشمیر کی مثال میں میں علاقہ پوٹھوہار کی بات کر رہا ہوں جو پنجاب کا گنجان ترین علاقہ ہے، جبکہ اسے ماضی کی طرح کثیر الانواع جنگلات سے ڈھکا ہونا چاہیے تھا۔
حالیہ گرمی و خشک سالی کی لہر جس کی وجہ کلایمیٹ چینج ہے نے کشمیر کے جنگلات سے فطری نمی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ یہ نمی زمین میں ہونا بہت ضروری ہے، کیونکہ فطری جنگلی آگ میں تمازت اور مٹی کی خشکی دونوں کا کردار ہوتا ہے۔ انسانی شرارت اس کے علاوہ ہے۔
کیا بارش اس کا حل ہے؟
جی نہیں۔۔۔۔
کیونکہ کسی بھی گرم اور خشک جگہ پر گرنے والی بارش فوراََ ہی غائب بھی ہو جاتی ہے اور مؤثر نمی پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
تو پھر اس کا حل کیا ہے؟
اس کا حل اوسط درجہ حرارت میں کمی ہے۔ کیونکہ ہر ایکو سسٹم کا ایک خاص درجہ حرارت ہوتا ہے جس پر وہاں کا حیاتیاتی عمل اپنے توازن میں رہتا ہے لیکن جونہی یہ توازن بگڑتا ہے تو بگڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس اوسظ ٹمپریچر کو سمجھنے کے بعد اس کو برقرار رکھنے کے لئے پائیدار اقدامات کرنے ہوں گے، جیسے؛
صرف ایسی گاڑیوں کا استعمال جو کم سے کم کاربن کا اخراج کریں۔ یعنی کالے دھویں والی گاڑیوں سے رومانس ختم کرنا ہو گا، اکثر انہی کے انجن دھویں کے راستے چنگاریاں پھینکتے ہیں۔
ایک نوع کے جنگلات کے بجائے مخلوط جنگلات کا قیام جس میں کونی فر درخت بھی ہوں اور پتوں والے درخت بھی۔ اس سے آگ کا زور ٹوٹتا ہے۔
. جنگلی حیات کی بحالی۔ کیونکہ جنگلی حیات جنگل کے توازن کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے، اور درختوں کے بیج کے پھیلاؤ کے ذریعے جنگل کو بڑھاتی بھی ہے۔
عوامی بیداری جس میں عوام اپنے ماحول کے معاملے میں سنجیدہ ہوں۔ اس کے لئے سوشل میڈیا اور نجی محافل میں ماحولیاتی تبدیلی کو گفتگو کا اہم جزو بنانا ہو گا۔
زراعت کی ترویج کرنی ہو گی، مثلاً اوائل گرما میں مکئی کی بروقت کاشت سے ماحول میں موجود کاربن پودے جذب کرنے لگتے ہیں اور ساون کے مہینے تک گرین ہاؤس گیسوں پر ایک قسم کا قابو پایا جا سکتا ہے۔ زرعی زمینوں میں تعمیر کے بجائے مزید زراعت کرنا ہو گی۔ بالخصوص ایسی فصلوں کی جن کا حجم یعنی باہوماس زیادہ ہو تا کہ زیادہ سے زیادہ کاربن فکس ہو سکے۔
6۔ فطری علاقوں میں ندیوں پر جھیلوں اور مصنوعی مرطوب زمینوں کا قیام، تا کہ ہوا میں نمی کو بڑھایا جا سکے، شہری علاقوں میں یہ نمی گرین ہاؤس گیس بن سکتی ہے لہٰذا وہاں اس کی ضرورت نہیں۔
اگر ان اقدامات کو عمل میں لایا جائے تو ہمالیائی خطہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے حتی الامکان بچ سکتا ہے۔ ورنہ میرے ہم وطنو یہ بات یاد رکھنا آپ لوگ زلزلہ بھول جاؤ گے، موسمیاتی تبدیلی اس قدر ظالم ثابت ہو سکتی ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.