سردار محمد حلیم خان
خبر ہے کہ جماعت نہم کے سالانہ امتحانات میں آزاد کشمیر کے تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار بچے ناکام ہوے ہیں ۔یہ بلاشبہ ایک ہوشربا صورت حال ہے۔یہ بچے ملت اسلامیہ ریاست جموں وکشمیر کا مستقبل ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں بچوں کا ناکامی سے دوچار ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پوری غیر جانبداری اور دیانتداری سے ہر سطح پہ اسباب کا تعین اور تدارک کیا جائے ۔اس میں کوءی شک نہیں کہ ان بچوں کو مکمل ناکام قرار نہیں دیا جاسکتا ان کی ایک بڑی تعداد جماعت دہم کا امتحان دیتے وقت اس کمی کو پورا کر کے پاس تو ہو جاءے گی لیکن کیا یہ مطلوب کارکردگی ہے؟
ہمارا براہ راست پڑھانے کا بھی تجربہ رہا ٹیچرز ٹریننگ کا بھی اور انتظامی زمہ داریاں بھی نبھاءی ہیں۔اس کی روشنی میں اس افسوس ناک حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ موجودہ امتحانی طریقہ کار میں جس میں پرچے کا ساٹھ فیصد حصہ معروضی اور صرف چالیس فیصد حصہ انشائیہ ہوتا ہے جن تعلیمی اداروں کے بچے فیل ہوے ہیں وہاں باقاعدہ کلاسز یاتو ہوتی ہی نہیں ہیں اگر ہوتی بھی ہیں تو سارا زور صرف رٹے اور سلیکٹو سٹڈی پہ دیا جاتا ہے۔
اگر مضمون کی تفہیم ادارے میں درست انداز سے کرائی گئی ہو تو صرف معروضی سوالات والا حصہ حل کر کے طلباء پاس ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی اتنی بڑی تعداد فیل ہو گءی اور صرف سرکاری اداروں کی نہیں بلکہ نامی گرامی پراءیویٹ اداروں میں بھی جماعت نہم کا رزلٹ پچاس فیصد سے بھی نیچے ہے
اس انحطاط کے  تعلیمی چوکور کے چاروں کونے ذمہ دار ہیں۔

والدین کی ذمہ داری
پہلی    ذمہ داری والدین پہ عاید ہوتی ہے  ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ والدین بچوں کے لیے سکول کا انتخاب اپنی تعلیمی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ فیشن کے طور پہ کرتے ہیں مثلا فلاں کا بچہ پنجاب کالج میں پڑھتا ہے یا کسی اور میں تو میں نے بھی اپنے بچوں کو وہیں داخلہ دلوانا ہے صرف اس لیے کہ  رشتے داروں دوستوں کی محفل میں فخریہ بیان کر سکوں میرا بچہ یا بچی فلاں معروف ادارے میں ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ جب آپ کسی کمزور پس منظر والے طالب علم کو  ایسے ادارے میں داخلہ دلواتے ہیں جہاں پہلے سے زیر تعلیم طلباء اس سے آگے ہیں تو آپ کو وہ کمی گھر پہ پوری کرنا ہوتی ہے اور ساتھ ہی سکول سے مسلسل رابطہ رکھنا ہوتا ہے جو کہ والدین نہیں رکھتے ۔دوسرا کام یہ کہ مشہور تعلیمی اداروں کے شوق میں بچوں کو اتنی دور داخلہ دلواتے ہیں کہ ان کا جتنا وقت سکول میں گزرتا ہے تقریباً اتنا ہی سفر میں گزر جاتا ہے
تیسرا کارنامہ یہ کرتے  ہیں کہ معصوم بچوں کے ہاتھوں میں موبائل پکڑا دیتے ہیں اور خود بھی سارا گھرانا رات کو موبائل پکڑ کے بیٹھ جاتا ہے نتیجہ یہ کہ کوئی خبر نہیں کہ بچے کی موبائل کے ساتھ مصروفیت کیا ہے۔
بچہ موبائل پکڑے والدین اور بہن بھائیوں سے کوئی سوال پوچھے بھی ڈسٹرب ہونے والوں سے اسے  رہنمائی کی بجائے جھڑکی ملتی ہے۔
چوتھی خامی یہ ہے کہ بچوں کے سامنے اساتذہ کا ذکر توہین آمیز انداز میں کرتے ہیں استاد کا احترام صرف بچوں پہ ہی نہیں بچوں کے والدین پہ بھی فرض ہے ورنہ بچوں میں بھی نہیں آتا ۔
اگر والدین صرف ایک کام کریں کہ بچے کو عمر کے لحاظ سے نزدیک ترین سکول میں داخلہ دلوائیں اور سکول کے ساتھ موثر اور مسلسل رابطہ رکھیں تو  بچے کی تعلیمی صورتحال کبھی خراب نہیں ہوسکتی۔

تعلیمی ادارے یا کاروباری ادارے ؟
گھرکے بعد دوسرا اہم کردار تعلیمی ادارہ ہے بدقسمتی سے پراءیویٹ تعلیمی ادارے صرف بزنس سینٹر بن چکے ہیں   کام رٹہ اور مارکیٹنگ ہے۔
پراءیویٹ تعلیمی ادارے فخر کرتے ہیں اور بلاشبہ ہے بھی فخر کی بات کہ ان کے طلباء بورڈ میں اکثر پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پچھلے بیس سال بورڈ میں اسی فیصد سے زائد نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے والے  بچے کدھر گے؟معاشرے میں گم کیوں ہو گے ؟
آج تو پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں ماہرین کی بھرمار ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہے تعلیمی اداروں میں بورڈ میں پوزیشن لینے کی دوڑ لگی ہوءی ہے اس کے لیے ہر حربہ اختیار کیا جاتا ہے ۔مشہور تعلیمی اداروں میں سب سے بڑی بددیانتی یہ کی جاتی ہے کہ برابر فیس لینے کے باوجود سارا فوکس صرف ان طلباء پہ ہوتا ہے جو پوزیشن لیکر مارکیٹنگ کا ذریعہ بنیں ۔
باقیوں کے لیے ہدف صرف رٹے اور سلیکٹو سٹڈی کے ذریعے امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔پھر امتحانات خاص کر عملی امتحانات کے لیے من پسند افراد کی ڈیوٹیاں لگوائی جاتی ہیں امتحانی عملے کی دعوتیں ہوتی ہیں اور امتحانی مراکز پہ بھی اثر انداز ہونے کی کوشش جاتی ہے۔
کبھی کبھار امتحانی عملہ فرض شناسی دکھا دے تو نتائج حالیہ نتائج کی طرح چکرا دینے والے ہو جاتے ہیں ۔
بورڈ میں پوزیشن کی دوڑ میں شمولیت کی وجہ سے سکیم آف سٹڈی کے ساتھ ظلم ہوتا ہے اُردو اور انگریزی میں حصہ گراءمر کو ساتھ ساتھ کور نہیں کروایا جاتا بلکہ حفظ کے سٹاءل سے پہلے ایک حصہ ختم کر کے اس کے بعد گرامر شروع کروائی جاتی ہے۔
اس کا عملی زندگی میں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بورڈ میں آپ کو میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں انگریزی میں اسی اور نوے فیصد نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے والے ایسے ایسے طلباء ملیں گے جو انگریزی میں دس جملے  بھی درست نہ بول سکتے۔ہیں نہ ہی لکھ سکتے ہیں
اس سب کے باوجود پرائیویٹ اداروں نے اپنا وجود اور بزنس برقرار رکھنا ہوتا ہے  کسی نہ کسی طرح وہ  کمزور بچوں کو بھی اگلی جماعت میں دھکیل ہی دیتے ہیں اصل سوال سرکاری تعلیمی اداروں کا ہے جہاں ایک ماہ کی جتنی تنخواہ حکومت کی طرف سے آتی ہے اتنا  کئی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا سارے سال کا بجٹ نہیں ہوتا۔اس کے باوجود سینکڑوں ہائی سکول آزاد کشمیر میں ایسے ہیں جن کا دہم کا بھی اور نہم کا بھی زیرو رزلٹ رہا۔
کیا یہ معمولی سانحہ ہے؟
اس طرح کے ایک سال کے نتائج تو خطے کو سال ہا سال بھگتنا پڑتے ہیں مگر یہاں تو سال ہا سال سے یہی ہو رہا ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ساٹھ فیصد معروضی پرچہ ہونے کے باوجود بچوں کا فیل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ کلاسز باقاعدہ نہیں ہوءیں اگر ہوءیں بھی تو اساتذہ اس قابل نہیں تھے کہ درست تفہیم کروا سکتے اس سے قبل طلباء سے سہ ماہی اور ششماہی امتحان  نہیں لیا گیا یا اگر لیا بھی گیا تو موثر جانچ کی بجائے رسم پوری کی گءی۔
 ایسا کیوں ہو سترہ اور اٹھارہ گریڈ کی مراعات لینے والے اور ان کے اوپر نگرانی کے فرائض انجام دینے والے کس مرض کی دوا ہیں ؟ کیا ان کی لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں حلال ہیں؟

اساتذہ  اور ٹیچر یونین کا کردار
المیہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومتوں نے ٹیچرز یونین کے دباؤ میں آکر ٹائم سکیل کے نام سے عجیب و غریب قانون بنا لیا جس کے نتیجے میں ایک نالائق ترین فرد بھی ہر چند سال بعد اگلے گریڈ میں ترقی پاتا پاتا سینیٹر ٹیچر کی سیڑھیوں کو محض عمر رسیدگی کی وجہ سے عبور کر کے ان کلاسز کو پڑھانے پہ مامور ہو جاتا ہے جن کی اہلیت اور مطلوبہ علم اس کے پاس نہیں ہوتا ۔یہ جو نتائج ہیں اس کے پیچھے کرونا کے دورانیے کے اثرات بھی ہیں لیکن زیادہ اثرات ٹاءم سکیل کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نالا ئق انتظامیہ اور سینئر سٹاف کے ہیں۔
یہ ماہرین صرف نقل کرنے اور نقل کروانے کے ماہرین ہیں  حالیہ برسوں میں چونکہ این ٹی ایس کے ذریعے بھی اچھی خاصی تعداد محکمہ میں اءی باور کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں نے امتحانات کو بوٹی مافیا نہیں بننے دیا اس وجہ سے بھی تعلیمی نظام پہ چڑھا ملمع اتر گیا۔یہ نتائج یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایلیمنٹری امتحانات کا سارا سسٹم بھی بوگس اور نقل پر استوار ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایلیمنٹری امتحانات میں بڑے بڑے نتائج دکھانے والے سرکاری تعلیمی ادارے  ثانوی بورڈ امتحانات میں ٹھس ہو گے۔
معاشی نکتہ نظر سے بھی دیکھا جاءے تو ماہانہ کروڑوں روپے تنخواہوں کی مد میں جو آتے ہیں ضائع ہو رہے ہیں۔
آخر حکومت اس مسلے کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتی؟

حکومت اور بیورو کریسی کا کردار
اس لیے کہ حکومت کے وزراء اور بیوروکریسی سرکاری تعلیمی اداروں کی آپ گریڈیشن صرف نءی آسامیاں پیدا کرنے کے لیے کرتی ہے۔ورنہ یہ نتائج ایسے ہیں کہ تعلیمی چوکور کے تیسرے کونے یعنی انتظامیہ کو بھی احتساب کےے کٹہرے میں لایا جائے ایک سال تک آزاد کشمیر کے ڈی اوز اور ڈائریکٹر صاحبان کس بات کی نگرانی کرتے رہے
اگر تعلیمی اداروں میں پڑھائی نہیں ہوتی تو سیکریٹری تعلیم ڈائریکٹر ڈویژنل ڈاءریکٹر ڈی ای آوز ڈپٹی ڈی ای آوز اور صدر معلمین کس بات کی تنخواہیں وصول کرتے ہیں ؟
یہ تلخ حقیقت ہے کہ حکومتوں سے لیکر تعلیمی افسروں تک نے محکمہ تعلیم کو صرف  مراعات سمیٹنے کا ذریعہ اور ایمپلائمنٹ بیورو بنا رکھا کوئی اپنا فریضہ ادا نہیں کررہا۔ عذر گناہ بدتر از گناہ کے طور پہ خراب نتائج کو سہولتوں کی کمی کا نتیجہ باور کروایا جا رہا ہے
ایسا نہیں کہ سارے سرکاری ادارے ایسے ہیں ۔بڑے شہروں میں کئی سرکاری تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں داخلے کے لئے والدین سفارشیں ڈھونڈتے ہیں
جہاں اساتذہ واقعی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں وہاں کے تعلیمی ادارے بورڈ کی ٹاپ پوزیشنز میں شامل ہوتے ہیں

طالب علموں کا کردار
چوکور کا چوتھا کونا طلباء ہیں لیکن وہ سفید کاغذ ہیں کوءی طالب علم نالائق نہیں ہوتا طلباء کو اس حال تک پہنچانے کے زمہ دار والدین اساتذہ اور انتظامیہ ہیں۔

اصلا ح  احوال کیسے ممکن ہے ؟
عملی تجاویز یہ ہیں کہ ٹائم سکیل ختم کیا جائے
ٹیچرز یونین پہ پابندی لگائی جائے محکمہ تعلیم کو لازمی سروس قرار دیا جاءے اور خراب تعلیمی کارکردگی کے حامل

اساتذہ اور متعلقہ اداروں کے صدر معلمین کی پورے سال کی تنخواہ ریفنڈ کی جائے

تعلیمی نتائج: حقائق بولتے ہیں

۔ گورنمنٹ ہائی سکول نتھہ گلہ۔
کل تعداد: 14
پاس: 6
فیل: 8

۔ گورنمنٹ انٹر کالج دیوی گلی۔
کل تعداد: 22
پاس: 9
فیل: 12

۔ گورنمنٹ ہائی سکول جنڈالی۔
کل تعداد: 24
پاس: 14
فیل: 10

۔ گونمنٹ ہائی سکول نڑول
کل تعداد: 28
پاس: 18
فیل: 10

۔ گورنمنٹ ہائی سکول بھنگو
کل تعداد: 50
پاس: 24
فیل: 26

۔ گورنمنٹ ہائی سکول اکھوڑبن۔
کل تعداد: 15
پاس: 7
فیل: 8

۔ گورنمنٹ ہائی سکول دوتھان۔
کل تعداد: 14
پاس: 0
فیل: 14

۔ گورنمنٹ ہائی سکول کھائی گلہ۔
کل تعداد: 17
پاس: 2
فیل: 15

۔ گورنمنٹ ہائی سکول علی سوجل۔
کل تعداد: 6
پاس: 0
فیل: 6

۔ گورنمنٹ ہائی سکول پوٹھی چھپریاں۔
کل تعداد: 35
پاس: 22
فیل: 13

۔ گورنمنٹ پائلٹ ہائی سکول ہجیرہ۔
کل تعداد: 58
پاس: 23
فیل: 35
 گورنمنٹ ہائی سکول ٹانڈہ گھمیر۔
کل تعداد: 57
پاس: 32
فیل: 25

 گورنمنٹ ہائی سکول اکرام آباد۔
کل تعداد: 16
پاس: 2
فیل: 14

۔ گورنمنٹ ہائی سکول رکڑ۔
کل تعداد: 33
پاس: 29
فیل: 4

 گورنمنٹ ہائی سکول چھوٹا گلہ۔
کل تعداد: 12
پاس: 10
فیل: 2


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

One Response

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content