تبصرہ نگار: ڈاکٹر ممتاز صادق خان
مجھے ایک صاحب کی یہ بات بہت پسند آئی، وہ کہہ رہے تھے ”مجھے گانا نہیں آتااس کے باوجود میں نہیں گاتا تو آپ سب کو میرا شکر گزار ہونا چاہیے“۔ دوستو!میرا حال بھی اس فرمان کے مطابق ہے۔ مجھے لکھنا نہیں آتا، اس کے باوجود نہیں لکھتا تو بجا طور پر توقع کرتا ہوں کہ آپ میرے شکر گزارر ہیں،ورنہ میں بھی اپنی یاوا گوئی اور پھکڑپن آپ پر مسلط کر سکتا ہوں۔ میری اسی نالائقی اور کمزوری کا نتیجہ ہے کہ برادر عزیز پروفیسر ایاز کیانی کی پہلی تصنیف (سفر نامہ) مارکیٹ میں آئے مہینہ بھر ہو گیا ہے اور مجھے یہ کتاب ملے بھی دو ہفتے سے زیادہ وقت ہوچکالیکن میں آج تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں لکھ سکا حالانکہ برادرعزیز ایاز کیانی کچھ مہربانوں کی طرح میرے ”برادر یوسف“ کبھی نہیں رہے اور ان کے ساتھ تعلق عزت احترام اور محبت پر قائم ہے۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے کسی دوست کی کوئی کتاب مارکیٹ میں آتی ہے تو پروفیسر عبدا لصبور شیدائی، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، ڈاکٹر محمد صغیر خان اور برادران عزیز قمر رحیم،نقی اشرف اور ممتاز غزنی تابڑتوڑ تبصروں پر اُتر آتے ہیں۔ ایاز کیانی کی ”تماشائے اہل کرم“بھی مارکیٹ میں آئی تو ہمارے یہ دوست موبائل فون اور قلم کمان سنبھال کر بیٹھ گئے اور یکے بعد دیگرے اس کتاب پر ایسے جامع اور خوبصورت تبصرے لکھتے چلے گئے کہ ہم ”تماشائے اہل کرم“ کے ساتھ ”تماشائے اہل قلم“بھی دیکھتے رہ گئے۔ان اہل قلم کے تبصروں کی جوار بھاٹہ کم نہ ہوئی تھی کہ کچھ اور آزمودہ کاروں کی آراء کی رم جھم برسنے لگی اور ہماری باری آتے آتے ”رات گئی بات گئی“ والا معاملہ ہو گیا۔ ایسی صورتحال کی عکاس کے لیے جو پہاڑی لطیفہ میرے ذہن میں ابھی ابھی وارد ہوا ہے کاش! وہ آپ کی نذر کر سکتا۔
کلمات معترضہ کے لیے معذرت چاہتے ہوئے میں آپ کے ساتھ یہ حقیقت بانٹنا چاہتا ہوں کہ میں پروفیسر ایاز کیانی کو اُردو زبان وادب کے بہترین استاد، ایک سلجھے ہوئے متواضح انسان اور سٹیج پر اچھی اور مختصر گفتگوکرنے والے سمجھ دارمقرر کے طور پر جانتا تھا۔ الحمد ا للہ! ”تماشائے اہل کرم“ لکھ کر وہ صاحب تصنیف بھی ہوگئے ہیں اور تصنیف بھی ایسی جسے آزادکشمیر کے علمی و ادبی حلقوں میں بے حد پسند کیا گیا ہے۔ اس کے لیے پروفیسر ایاز کیانی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
”تماشائے اہل کرم“ پڑھتے ہوئے مجھے حیرت ہوئی کہ پروفیسر صاحب وقت کے وہ ”ابن بطوطہ“ہیں جنھوں نے کشمیر سے کوئٹہ اور کراچی تک کا یہ سفر تن تنہا کیا۔ مختلف شہروں میں اگر چہ انھیں دوست اور شاگرد ملتے رہے لیکن سفر کی صعوبتیں انھوں نے یکے و تنہا ہی سہی، حالانکہ وہ کثیر الاحباب انسان ہیں، چاہتے تو اپنے کسی دوست کو ساتھ لے جا سکتے تھے۔بالفرض انھیں اِ س سفر کے لیے کوئی دوست میسر نہیں تھا تو برادر شاہد مختار کی خدمات حاصل کر سکتے تھے۔ بھلا شاہد مختار صاحب کی موجودگی میں کوئی راولاکوٹی کہیں اکیلا گیا ہے کیا؟وہ تو ہم جیسوں کے ساتھ ہم سفر ہو جاتے ہیں آپ کے ساتھ تو اُن کا ”دوہرا“تعلق ہے۔ اس کے باوجود پروفیسر صاحب اس طویل سفر کے لیے اکیلے نکلے اور ہماری بھلے منساہٹ دیکھیے کہ پھر بھی اُن کی نیت اور ارادوں پر کوئی شک نہیں کرتے۔
آپ کے لیے یہ جاننا قطعاً ضروری نہیں، میں صرف تبصرہ نگاروں اور نقادوں کی روایت نبھانے کے لیے یہ بات کر رہا ہوں کہ اُردو میں سفر نامہ نگاری کا آغاز ۷۴۸۱ء میں محمد یوسف خان کمبل پوش کے سفر نامہ ”عجائبات فرنگ“ سے ہوا، اس کے بعد سر سید احمد خان کے سفر نامے ”مسافرانِ لندن“ اور محمد حسین آزاد کے ”سیرِایران“ کا ذکر آتا ہے۔ ڈیڈھ صدی سے زائد اس سفری ارتقاء میں اُردو سفر نامہ ابن انشاء اور مستنصر حسین تارڑ سے ہوتا ہوا پروفیسر ایاز کیانی تک پہنچ گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُردوادب میں آج تک کوئی عہد ساز اور رجحان ساز سفر نامہ تخلیق نہیں ہوا۔ اُردو میں جس پائے کی نظم یا غزل کہی گئی ہے یا جس معیار کے ناول ڈرامے اور افسانے تخلیق ہوئے ہیں اُس معیار کا سفر نامہ نہیں لکھا جا سکتا۔ اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ بظاہر آسان اور سہل نظر آنے والی یہ صنفِ نثر در حقیقت بہت بڑی فن کاری کا تقاضا کرتی ہے۔ ایک اچھے سفر نامہ نگارکو اچھا افسانہ طراز،ا چھامکالمہ نگار اور اُس سے بھی اچھا خاکہ نگار ہونا چاہیے، صرف یہ ہی نہیں بل کہ اس کے ہاتھ میں ایک مشاق مصور کا فن بھی ضرور ی ہے۔
علم و ادب کے انحطاط کے اس دور میں سفر نامہ کی رہی سہی روایت بھی روبہ زوال ہے، آج کل تو سفر نامہ لکھنے کی بجائے فلمانے اور لائیو دکھانے کا رجحان عام ہو گیا ہے۔ بھلا ہو پروفیسر ایاز کیانی کا جنھوں نے سفر نامے کے لیے موبائل فون کے بجائے قلم و قرطاس کا سہارا لیا اور اس مشکل صنف نثر سے پنگا لینے کی جسارت کی جس کے نتیجے میں قاری کو ایک خوبصورت سفر نامہ پڑھنے کو ملا۔
اگر آپ کو عہد حاضر یا ماضی قریب کے سفر ناموں کے مطالعے کا اتفاق ہوا ہو تو اتو آپ نے یہ بات ضرور محسوس کی ہو گی کہ آج کل کے سفر نامہ نگار، سفر نامے کے لیے درکار ساری قابلیتوں کی تلافی زیب داستان سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے سفر ناموں میں سفر کہیں پس منظر میں رہ جاتا ہے اور جھانکا تا نکی غالب آجاتی۔ ہمارے زیادہ تر سفر نامے ائیر ہوسٹسوں کی دل ربا اداؤں اور نیلگوں سمندر کے کنارے ریت، مٹی پر اُوندھی پڑی مخلوق کی منظر کشی تک محدودہو کر رہ گئے ہیں۔ میر ا خیال ہے ایسے سفر نامے پروفیسروں اور بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کا خاص اہتمام ہونا چاہے۔پروفیسر ایاز کیانی نے اپنے سفر نامہ میں حرف کی حرمت کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ اِس سفر نامے میں ان مناظر کی تلاش سعی لا حاصل ہو گی۔
سادگی اور سچائی کا جو خاصا پروفیسر ایاز کیانی کی شخصیت کاحصہ ہے وہ اُن کی تحریر میں بھی نمایاں ہے۔ سادہ اور رواں دواں اسلوب نے اُن کے اِس سفر کو اتنا دلچسپ بنا دیا ہے کہ کہیں بھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا اور ہر مقام اور ہر شہر میں کچھ دن اور ٹھہرے رہنے کی خواہش ہوتی ہے۔اچھا سفر نامہ نگار اپنے قاری کو بھی اپنا ہم سفر بنا دیتا ہے”تماشائے اہل کرم“ میں قاری کہیں بھی مصنف سے انگلی چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کرتے نظر نہیں آتا بل کہ لا ہور، ملتان، کوئٹہ اور کراچی کی سیر اور وہاں کی متنوع تہذیبی زندگی کی پرتیں کھولنے میں منہمک ہو جاتا ہے۔ یہ بات ضرورت ہے کہ پروفیسر ایاز کیانی زیادہ خوش خوراک نہیں لگے ورنہ وہ اپنے قاری کو پھجے کے سری پائے، حافظ کا سوہن حلوہ، کوئٹہ کے سجی کباب اور کراچی کی بریانی ضرور چکھاتے۔ لیکن کوئی بات نہیں وہ اس کوتا ہی کی تلافی راولاکوٹ میں ہی دوستوں کی تواضح سے کرسکتے ہیں۔ ہم اُن کی دعوت ِشیراز اور دوسری کتاب کے منتظر رہیں گے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.