سردار محمد حلیم خان
سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنا ہمارا وطیرہ سا بن گیا ہے۔یہ ایک معمول بن چکا ہے کہ کسی المیے کے رونما ہونے کے بعد تو ہر طرف خوب رونا دھونا ہوتا ہے لیکن چند دن ہی دن گزارنے کے بعد جوش سرد پڑ جاتا ہے ہم معمول کی سرگرمیوں میں جت جاتے ہیں شاید کسی ایسے ہی مزید سانحے کے لیے یہ امر ہمارے نظام انصاف کے لیے شرمناک ہے کہ اسی موٹر وے پہ جہاں سال ڈیڑھ سال پہلے زیادتی کا واقعی ہوا چند دن قبل ویسا ہی ایک سانحہ پھر ہوا۔۔پچھلے کچھ عرصے سے آزاد کشمیر میں بھی خواتین کے ساتھ ہراسگی اور زیادتی کے واقعات ہوےجو تقریبآ تمام ہی شہر وں میں ہوے۔سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ واقعات منظرعام پہ آ گے ورنہ یہ کوءی آج کا واقعہ نہیں ہے۔جوں جوں میڈیا مادر پدر آزاد ہوتا جارہا ہے اور وہ سب کچھ دکھاتا ہے جسے دیکھ کر شیطان بھی شرما جاۓایسے واقعات بھی بڑھ گے ہیں۔لیکن ہمارے قانون ساز اداروں کے اسی معاشرے میں رہنے والے افراد کے کان پر جوں نہیں رینگتی وہ ایسے واقعات کے سدباب کے لیے قانون سازی نہیں کرتے تو جراءم پیشہ افراد کے حوصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔موباءل فون نیٹ اور کیمرے کی ہر ہاتھ میں سہولت نے بلیک میلنگ کا کام بہت آسان کر دیا ہے۔یہ ایک نءی صورت حال ہے ۔اس کے منفی پہلوؤں کو روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت تھی جو نہیں ہوءی نتیجہ سامنے ہے۔کہیں تعلیمی اداروں اور مدارس میں طلبا اور طالبات کی ہراسگی کے واقعات ہو رہے ہیں تو کہیں ہسپتال کے عملے کے ہاتھوں۔حد تو یہ ہے کہ سکول وینز اور تعلیمی اداروں کے قرب و جوار میں موجود دکانیں بھی ہراسگی کے اڈے بن چکے ہیں ۔راولاکٹ میں تو ایک نوجوان ایسے واقعات میں رکاوٹ ڈالنے کی پاداش میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔دیکھا جاءے تو اس کے قتل کی زمہ دار ریاست عدالتیں اور انتظامیہ ہے جو اپنی زمہ داری پوری نہیں کرتے تو عوام کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینے پڑتےہیں ۔جس کے نتیجے میں کءی قیمتی نوجوان جراءم پیشہ افراد کے انتقام کا نشانہ بنتے ہیں۔
لیکن آج میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔یہ بلیک میلروں کا ایسا گروہ ہے جو انتہائی دیدہ دلیری سے نوجوان کلیوں کو نوچتا اور بے آبرو کرتا ہے کسی کی اس طرف کوئی توجہ نہیں۔یہ گروہ ہے نام نہاد عاملین کا۔حیرت ہے کہ کلمے کے نام پر بننے والے ملک میں دیوار یں ایسے اشتہارات سے بھری ہوتی ہیں کہ محبوب آپ کے قدموں میں اور ہرقسم کا جاءز اور ناجاءز کام کروانے کے لیے اءیں۔اس تحریک کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لڑکیاں گھر سے چوری چھپے ان عاملین کے پاس جاتی ہیں۔اور ان کی ہر جائز اور ناجائز خواہش پوری کرنے پہ مجبور ہوتی ہیں۔اسی طرح جس محبوب کو جعلی طریقے سے قدموں میں ڈالا جاتا ہے اس کی اصل منکوحہ یا منگیتر بھی متاثر ہو کر عاملین کا رخ کرتی ہے۔عاملین عمل کرنے اور عمل توڑنے کے نام پر شیطانی کھیل کھیلتے ہیں اور انھیں گرفت کا کوءی خطرہ بھی نہیں ہوتا۔تھانے اور عدالت کا ان معاملات میں انصاف اور تفتیش کا طریقہ کار اتنے بھیانک پیچیدہ اور خوفناک ہے کہ متاثرہ فرد اس طرف جانے سے خودکشی کو ترجیح دیتا ہے اور ایسے کءی واقعات رونما بھی ہو چکے ہیں درحقیقت بلیک میلروں کے ہتھے لگنے والی لڑکیاں اور لڑکے مظلوم ترین مخلوق ہیں کیونکہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی بلند کریں تو ذہنی پستی کا شکار انھیں کو خوش دیتا ہے اور اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کی بجائے ایسے قصوں سے لطف لیتا ہے۔اس وقت آزاد کشمیر میں ایک نوجوان اور پڑھے لکھے آدمی کے پاس وزارت قانون ہے۔وہ ان عاملین اور جملہ بلیک میلروں کو قانون کی گرفت میں لینے کے لیے قانون سازی کروا کر معاشرے کے ایک انتہائی مظلوم طبقے کو انصاف کی فراہمی یقینی بنا سکتے ہیں اور تاریخ میں اپنا نام بنا سکتے ہیں۔ہراسگی کے واقعات کی رپورٹنگ سے انوسٹی گیشن تک اور عدالتی کاروائی تک صرف خاتون افسروں اور ججز کو مقرر کیا جاءے وکلاء کو جرح کے نام پر گھٹیا اور غیر اخلاقی سوالات سے روکا جائے۔
تاکہ جرائم پیشہ افراد تعلیمی اداروں اور جاب سائٹس پر ہراسگی کا شکار ہونے والی خواتین بلا خوف وخطر انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا سکیں۔اگر قانون سازی موثر ہو تو شیطانی ذہنیت والا کوئی فرد ہراسگی کی جرات کر سکتا ہے نہ عامل بن کر عزت سے کھیل سکتا ہے۔موثر قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے نتایج اس ملک میں جا بجا نظر آتے ہیں جس میں میں بیٹھا ہوں۔یہاں لڑکیوں کو شاپس پہ کام کی اجازتِ دی گءی تو کیمرے کی مدد سے کئی فالتو فری ہونے والے مشٹنڈے ایک ہی ہفتے میں گرفتار کیے گے۔یہ خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گءیں اور اب پوزیشن یہ ہے کہ خواتین والی دکانوں پہ جانے والے نوجوان غض بصر کے قرآنی حکم کی اتنے خشوع خضوع سے تابعداری کرتے ہیں ساری خریداری کے دوران سر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔پاکستان میں لبرل طبقے کی ہمدردیاں ہمیشہ مجرم کے ساتھ ہوتی ہیں عدالتیں اور انتظامیہ لبرل ازم کے محافظ ہیں وہ مجرم کو سزا نہیں ہونے دیتے۔آزاد کشمیر میں قانون سازی کے زریعے ایسے جراءم کا ٹرائل تین ماہ میں مکمل کرنے کا قانون بنایا تو گیا تھا لیکن اس وقت تک کسی کیس میں یہ قانونی تقاضا پورا نہیں کیا گیا۔توقع کرنی چاہیے کہ نوجوان وزیر قانون قانونی سقم دور کریں گے جو مجرم کوسزا سے بچاتا اور اس کو ہیرو کے طور پہ متعارف کرواتا ہے۔پھر اللہ کی لاٹھی حرکت میں آتی ہے
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.