انجم قدوائی
جھیل کے پانی پر چنار کے زرد پتے تیر رہے ہیں اور پہاڑ خوف زدہ سانس روکے کھڑے ہیں۔کبھی یہی پہاڑ برف کا سہارا لے کر ایک دوسرے سے ہم آغوش ہوتے ، تو کبھی ہرے سنہرے سرخ اور زرد پتوں والے درخت شاد ہو کر جھومتے، سیب ، انگور اور اخروٹ کی ٹہنیاں فضا میں خوشبوئیں بکھیرتیں، زعفران کے کھیت ہنستے اور شکاروں کے سائے جھیل میں گد گدی پیدا کرتے۔ رنگین پرندوں کی چہچہاہٹ فضا میں نغمگی بکھیر دیتی۔
موسم بدلتا تو پوری وادی مہمانوں کی خاطر میں لگ جاتی شکاروں پر نئے پردے لگا ئے جاتے۔سڑکوں پر دور دور سے آئے ہوئے قافلے ہنستے کھلکھلاتے تمام قدرتی منا ظر سے مبہوت ہوکر شاد ہوجاتے ۔بلند وبالا پہاڑوں پر جمی شفّاف برف کے سائے میں تصویریں اتُاری جاتیں یادگار کے طور پر ڈھیروں سامان خریدا جاتا ۔اگر برف باری ہوجاتی تو گویا قافلوں کی قسمت کھلُ جاتی وہ ان حسین نظاروں کو دل میں چھپُا لیتے ۔خوش وخرم ننھے بچّے برف پر قلا بازیاں کھاتے اور ان کے مسرور قہقہوں سے ساری وادی گلزار ہوجاتی ۔
شاعر،ادیب،مصور یہاں آکر اپنے فن کو جلا بخشتے۔۔ پر لگتا حق ادا نہ ہوا ۔۔ ان کے لفظ اور ان کے رنگ قاصر تھے اس کی حقیقی تصویر کشی سے۔۔
مگر پھر اچانک بارود کی بونے سارا منظر بدل کر رکھ دیا۔سیب، انگور اور اخروٹ محبوس ہو گئے۔ چشموں کی گنگناہٹ تھم گئی۔ پرندوں کو خاموش کر دیا گیا۔ چنار کے جھومنے پر پابندی لگ گئی۔ شکارے تھم گئے اور جھیل کا شفاف پانی گدلا ہو گیا۔ ہر سمت ایک کربناک سناٹا پھیل گیا۔ بوٹوں کی دھمک سے زمین کا کلیجہ دہلنے لگا۔
ذہین آنکھوں میں تجارت کے خواب سو گئے۔
شاعر اور ادیب کے الفاظ گونگے ہو گئے ، مصور کے برش کا سارا رنگ خوں آشام ہو گیا ۔۔
رنگین دھاگوں سے بنی ادھوری شالیں ایک ڈھیر کی صورت کمرے کے کونے میں پڑی حیران آنکھوں سے ایک ایک کا چہرہ دیکھنے لگیں۔ ہرآنکھ میں ایک سوال تھا مگر جواب کسی کے پاس نہ تھا۔رنگین شالوں اور پشمینہ کے سوٹ میں چُبھی ہوئی سوئیاں زنگ آلودہ ہورہی تھیں ۔ گلاب اور زعفران کے کھیت پامال ہو گئے۔ ان کی ہنسی کر اہوں میں تبدیل ہو گئی فضا میں چیخوں سے ایک کہرام برپا ہو گیا۔ زعفران کے کھیت ہنسنا بھول گئے اور پہاڑ اپنی بلندی پر شرمسار رہنے لگے۔
جھیل کی سطح پر زرد پتے بڑی خاموشی سے گرتے کہ مبادا کوئی آواز ہو جائے۔ شکارے ڈرے ہوئے تھے اور جھیل کا پانی خوف سے سمٹا ہوا۔
اپنے اپنے گھروں میں دبکے ہوئے لوگوں کی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ کیوں اتنے مجبور اور محبوس کر دیئے گئے ہیں ۔ کسی کو اپنے پڑوس کی خبر نہ تھی ۔ اعجازشیخ بھی ان میں سے ایک تھا ۔۔ جو بھرے پرے محّلے کے درمیان رہتے ہوئے قبرستان کی خاموشی خود میں اترتا محسوس کر رہا تھا ۔ خاص کر جب سے اس کی بچی بیمار ہوئی تھی۔ اس نے دیکھا بچّی کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں اور ماں کی متوّرم آنکھیں مسلسل برس رہیں تھیں۔ وہ پہلے بھی کئی بار اسے لے کر باہر نکلنے کی کوشش کر چکا تھا اور روک دیا گیا تھا۔ آج پھر وہ بے قرار ہوکر دروازے کی جانب دوڑا توراہ میں رکھی ہوئی کسی چیز سے ٹکرایا، لڑ کھڑا کر گرا اور چوٹ کی پروا کیے بغیر ہی باہر کی طرف جھانکنے لگا ۔ دور دور تک سنّا ٹا تھا ۔۔ اس نے عجلت میں بچّی کو ماں کی گود سے لے لیا ۔۔ ماں بے حس و حرکت بیٹھی رہی ۔ کچھ دیر بعد جب ہوش میں آئی تو بے چین ہو کر پکار اٹھی “میں بھی چلوں گی ” الفاظ تھے کہ خوف کے مارے حلق سے نکل نہیں پا رہے تھے ۔” نہیں ۔۔۔ میں لے جاتا ہوں ۔۔ تو یہیں انتظار کر” کہتا ہوا وہ باہر نکلا۔
سڑک پر آتے ہی سامنے رائفل بردار فوجیوں کا سامنا ہوا وہ چھپ کر نکلنے کی کوشش میں دہرا ہوگیا مگر بازو میں سنگین کی نوک نے اسے سیدھا کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا سر اٹھا کر دیکھا تو دو فوجی گہری نظروں سے اسُے دیکھ رہے تھے ۔
“کہاں بھاگ رہا ہے اور یہ تیری گٹھری میں کیا ہے” ایک نے اسکی گود میں بے ہوش پڑی بچّی کو چھیننے کی کوشش کی تو اسکی آنکھیں دہشت کے احساس سے پھٹنے لگیں ۔ٹوٹے پھوٹے الفاظ منھ سے نکلے ۔
“بچّی ۔۔۔۔بیمار ہے صاحب ۔۔مر رہی ہے ۔اسپتال جا نا ہے ۔۔۔ جانے دیجئے صاحب جانے دیجئے ” وہ روہانسی ہو کر بولا تو آدھے الفاظ حلق ہی میں اٹک کررہ گئے ۔۔
فوجی اس کو گہری نظروں سے کھنگھال چکُے تو کپڑا ہٹا کر بچّی کا چہرہ دیکھا جو بے سدھ پڑی تھی ۔ شاید بچی کی حالت پر ترس آگیا تھا جوآگے جانے کی اجازت مل گئی تھی ۔
تمام گلاب اور زعفران کے کھیت خشک ہوچکے تھے ساری زمین سوکھے پتّوں سے بھری ہوئی تھی۔وہ قریب کے اسپتال کی طرف دوڑا جارہا تھا ۔کئی جگہ پر روکا گیا سوال جواب ہوئے ۔
بچّی کی اکھڑتی سانسوں کو سہارا دینے وہ بھاگ رہا تھا اس امید میں کہ وقت پر اسپتال پہنچ جائے مگر فاصلے ، بندوق کی نوک کے سائے تلے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ وہ اپنی چیخیں اپنے اندر گھوٹنے میں نڈھال ہوچکا تھا ۔۔
اسپتال کا دروازہ پورا کھلاُ تھا مگر ایک ویرانی اور دبیز سنّا ٹے نے اُس کا استقبال کیا ۔ وہ قیمتی اثاثے کو گود میں سمیٹے آگے بڑھتا گیا کوئی نظر نہیں آرہا تھا نہ کوئی ڈاکٹر نہ نرس ۔وہ بیقراری سے کمروں، برآمدوں میں چّکر کاٹ رہا تھا ۔دور سے ایک انسان کی شبیہہ نظر آئی تو وہ تیزی سے اس کی طرف لپکا ۔
“ڈاکٹر صاحب میری بچّی کو بچا لیجئے ۔دیکھ لیجئے میری بچّی کو بہت تکلیف ہے
وہ آدمی رکا ۔اس نے شیخ کے کاندھے پر آہستہ سے ہاتھ رکھا اور پاس پڑی کرسی پر بٹھا دیا ۔
“میں ڈاکٹر نہیں ہوں ۔میں خود ایک مریض ہوں ۔۔میں بھی بہت تکلیف میں ہوں مگر یہاں کوئی نہیں ہے دوست “۔
اب میں کیا کروں کہاں جاؤں ۔میں تو بڑی دور سے ۔۔۔۔اسُ نے کپڑا ہٹا کر بچّی کا چہرہ دیکھا جو موت کی میٹھی نیند سو چکی تھی ۔
اسُے اب کوئی تکلیف نہ تھی ا س کی سانسیں بند ہوچکی تھیں مگر جسم اب تک گرم تھا ۔
شیخ کی خاموش چیخیں حلق میں گھٹ رہیں تھیں۔ سارے آنسو دھواں بن کر احساس کا گلا گھونٹ رہے تھے ۔ وہ دوسرے مریض کے سہارے چلتا ہوا باہر تک آیا ۔پھردونوں اسپتال کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ ۔ اس نے اپنی گود میں پڑے مرجھائے ہوئے گلاب کو دیکھا ۔۔ اور اس کی ٹھنڈی پیشانی پر اپنے لب رکھ دیے۔ گرم گرم آنسو کے دو قطرے معصوم بچی کے اسکارف پر گر کر اس میں جذب ہو گئے۔
دور افق اور شفق کا رنگ ایک ہو گیا تھا ۔ فضا میں بارود کی اجنبی بو ہر سو ہونے والی انہونی کا خاموش پیغام لے کر گھوم رہی تھی۔
اور شاہراہوں کی ویرانی کا سناٹا امن کا پیغام ، گولیوں کی تڑ تڑاہٹ خوش آئند مستقبل کی آمد ۔ اس کی بچی ان ساری تبدیلیوں سے دور چلی گئ تھی۔ اب اس کی معصوم آواز اس سے کبھی نہیں پوچھے گی۔” بابا ہم باہر کب جائیں گے”
اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تونڈھال چنار کے بلند قامت درخت جھک کر جھیل کے پانی میں اپنا ہو نق چہرہ دیکھ رہے تھے۔
زرد پّتے ٹوٹ کر خاموشی سے پانی میں گرے اور دور تک بہتے چلے گئ
بشکریہ : پنجند ڈاٹ کام
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.