دانیال حسن چغتائی

اس وقت جو کتاب میرے سامنے رکھی ہے ، اس کا نام ہے بہاولپور میں اجنبی جسے پریس فار پیس فاؤنڈیشن نے شایع کیا ہے ۔ کتاب کھولتے ہی سب سے پہلے جو خوشی کا احساس ہوتا ہے وہ اس کی مضبوط بائنڈنگ اور کاغذ کا عمدہ لگایا جانا ہے ۔ کتاب  میں دلچسپی کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ بہاولپور ہمارا پڑوسی ضلع ہے ۔ اس وجہ سے یہ کتاب پڑھنے کا بہت شوق تھا جو  ادیب  نگر  کے ایک تحریر ی مقابلے کے طفیل پورا ہوا ۔ کتاب پڑھنا شروع کی تو معلوم ہوا کہ صاحب کتاب نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ماسٹرز کے پرچہ جات کے دوران گزرے گئے ایام کو سفرنامہ کی شکل دی ہے جو اپنی جگہ حیرت کا باعث بن گئی ۔
کتاب کے سرورق پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا داخلی دروازہ اور بہاولپور کی پہچان روہی کا عکس نمایاں ہے ۔ مصنف نے کتاب کا انتساب اپنے والدین اور اپنی مادر علمی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے نام کیا ہے ۔ دہلی اور برطانیہ کے کہنہ مشق لکھاریوں کی آراء بھی کتاب کا حصہ ہیں ۔ اپنا بندہ میں مصنف نے کسی لگی لپٹی کا اظہار نہیں کیا اور بڑے واضح انداز میں اپنے متعلق سب کچھ بیان کر دیا ہے ۔ پہلے باب یہ بہاولپور میں ریلوے اسٹیشن تک پہنچنا اور ہوٹل میں قیام کے واقعات خوبصورتی سے قلمبند کیے گئے ہیں ۔ نوابوں کا شہر بہاولپور کیسے اور کہاں سے دیکھیں بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔ بہاولپور میں کشمیری طلبا دور دراز سے آنے والے طلباء کے ماسٹرز کا قصہ بیان کرتی داستان ہے ۔ آج بھی سات ہزار روپے میں یہ یونیورسٹی پرائیویٹ ایم اے کروا رہی ہے ۔ شہر گردی بذریعہ فرید گیٹ میں عمدگی سے راستوں کا احوال بیان کیا گیا ۔ اندرون بہاولپور میں پرانے بہاولپور کے راستوں کا احوال ملتا ہے ۔ اگلے ابواب میں مصنف سرائیکی زبان کے سحر میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ بہاولپور لائبریری اور جامع مسجد الصادق کا احوال اس سے آگے ملتا ہے ۔ اس سے اگلے ابواب میں بہاولپور کے مختلف علاقوں کا ذکر ملتا ہے ۔ ایڈا تو نواب میں مزاح کا رنگ نظر آیا ۔ نواب آف بہاولپور پر بھی مختصر مضمون شامل ہے ۔ تہذیبی ورثہ میں بہاولپور کی ثقافت کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ آخر میں مصنف کی مادر علمی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا قیام کیسے عمل میں لایا گیا اور واپسی کا احوال ملتا ہے ۔ مجموعی طور پر اگر ایک ایسا شخص جو صرف امتحانی نقطہ نظر سے بہاولپور آیا ہو، کے قلم سے ایسی تحریر کوایک  سو سے میں سے اسی  نمبر تو بنتے ہیں۔
مصنف نے اگر چہ اختصار سے کام لیا ہے تاہم یہ سفرنامہ دراصل ایک با شعور سیّاح کے ان تجربات، مشاہدات اور وارداتِ قلبی کا نچوڑ ہے جو اس نے دورانِ سفر محسوس کئے اور اپنے سفر کے اختتام کے طویل عرصے کے بعد رقم کیا ہے۔
صاحب تحریر نے یقیناً پُر اسراریت اور دلچسپی کا سامان پیدا کیا ہے، لیکن غیر ضروری رنگین بیانی سے سفر نامہ کو مجروح نہیں کیا بلکہ سادہ اسلوب زبان اختیار کیا گیا ہے ۔
اچھے سفرنامے کی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے مطالعے سے قاری بھی سیاح کے ساتھ سفر میں شامل ہو جائے، پڑھنے والے کو محسوس ہو کہ وہ صرف پڑھ نہیں رہا ہے بلکہ وہ بھی سفر کر رہا ہے، اور تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ یہ کتاب اس خصوصیت پر بھی پوری اترتی ہے۔ جو لوگ بہاولپور سے دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں وہ اس کتاب کو پڑھ کر خود کو نوابوں کی نگری میں محسوس کر سکتے ہیں ۔
کتاب کے دوسرے حصے میں مصنف نے دو افسانے دل مندر اور ایک بوند پانی شامل کئے ہیں ۔ دل مندر میں معاشرتی تفاوت اور ایک مزارات پر رونما ہوتے واقعات میں سے ایک کی خوبصورتی سے منظر کشی کی گئی ۔ خاص طور پر اختتام نہایت متاثر کن رہا کہ عمومآ ایسا ہی ہوا کرتا ہے ۔ دوسرا افسانہ ایک بوند پانی سفر اور معاشرتی تفاوت کا رنگ لئے نظر آیا۔ بہر حال ایک ایسا پاکستانی جو دیار غیر میں مقیم ہو، اس کی اردو میں ایسی کاوش قابل تحسین ہے ۔
یہ کتاب پریس فار پیس فاؤنڈیشن سے منگوائی جا سکتی ہے ۔ اگر آپ نے ابھی تک یہ کتاب نہیں پڑھی تو آپ نے ایک اچھی کتاب نہیں پڑھی ۔ آپ اسے منگوا کر پڑھیں ۔ ان شاءاللہ مجھے دعا دیں گے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content