اپنے آپ سے ملاقات /عبدالخالق ہمدرد 

You are currently viewing اپنے آپ سے ملاقات /عبدالخالق ہمدرد 

اپنے آپ سے ملاقات /عبدالخالق ہمدرد 

عبدالخالق ہمدرد 
اگر آپ کو پیاس لگی ہے اور پانی نہیں مل رہا، بھوک لگی ہے اور کھانا دستیاب نہیں، کہیں جانا چاہتے ہیں اور کرایہ ندارد، کچھ لینا چاہتے ہیں اور جیب خالی ہے، کسی کو کچھ دینا چاہ رہے ہیں اور ناداری آڑے آ جاتی ہے ۔۔۔ ایسی کیفیت کو ضرورت کہتے ہیں اور دنیا میں ضرورت اور حاجت سے بری چیز کوئی نہیں۔ یہ انسان سے اس کی عزت، وقار، خود داری اور سفید پوشی بلکہ ناموس اور بعض اوقات جان تک لے لیتی ہے۔ 
آدمی ضرورت کے آگے اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ اس لئے عوامی مثال ہے کہ ’’ضرورت میں گدھے کو بھی باپ کہنا پڑ جاتا ہے‘‘ اور کتابی مثال ہے کہ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ضرورت آپ کو نئے نئے رستے سجھاتی ہے۔ اس لئے آج ہم کسی بھی قسم کی جو بھی ترقی دیکھ رہے ہیں، اس کا منبع یہی ضرورت ہے اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دنیا میں پیسے کی اپنی کوئی قیمت نہیں۔ انسان کی ضرورت اور ضرورت کا درجہ اس کی قیمت بڑھاتا ہے۔ مثلا ایک آدمی کو ایک روٹی چاہئے اور اس کی جیب میں اس کے پیسے نہیں تو یہ پہاڑ ہے لیکن اگر اسی آدمی کو لاکھوں روپے کی کسی چیز کی ضرورت ہے اور وہ اس کے پاس ہیں، تو کچھ بھی نہیں۔ 
اس لئے بزرگوں کا کہنا ہے کہ ’’چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ‘‘۔ یہ ضرورت کو پورا کرنے کا پہلا طریقہ ہے کیونکہ اس طرح آپ دستیاب وسائل اور ضرورتوں میں ایک توازن قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر جائز وسائل میں اضافہ کیا جائے۔ یہ طریقہ مشکل ہے کیونکہ اس میں آپ کو محنت اور حرکت کرنا پڑتی ہے۔ معمول سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس سے عام طور پر لوگ کتراتے ہیں اور پھر حالات کی شکایت اور مشکلات کا رونا، رونا شروع کر دیتے ہیں۔ 
زندگی کے سفر میں ہم بھی ضرورتوں اور وسائل میں عدم توازن کا مشاہدہ کر چکے ہیں اور انہی کی بدولت اللہ کے کرم سے چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا کسی حد تک سیکھ لیا جس سے زندگی میں ایک سکون اور چین ہے۔ شاید اسی عامل نے زندگی کے بہت سے پہلوؤں میں کفایت شعاری کو مزاج کا حصہ بھی بنا دیا ہے۔ اس لئے کسی چیز کے نہ ملنے سے کوئی دکھ نہیں ہوتا البتہ اس سب کے باوجود ایک چیز کا افسوس بارہا ہوا کہ کوئی کتاب پسند آ گئی لیکن اسے خریدنے کے لئے دام نہیں تھے۔ 
گزشتہ دنوں ایک واقعہ پیش آیا جس سے لگا کہ میں اپنے آپ سے ملاقات کر رہا ہوں۔ میں کتابوں کی ایک دکان میں کھڑا تھا۔ ایک طالب علم آیا۔ اس نے ایک کتاب مانگی۔ دکاندار نے کتاب دی مگر اس کی قیمت طالب علم کو زیادہ محسوس ہوئی۔ اس نے رعایت کرنے کو کہا تو دکاندار نے اسے کتاب کی دوسری طباعت دکھا دی جس کی قیمت کم تھی مگر ساتھ ہی اس کا حجم چھوٹا اور کاغذ گھٹیا تھا۔ طالب علم نے پھر پہلی کتاب اٹھائی اور کہا کہ اس کی قیمت کچھ کم کر دیں مگر دکاندار بولا اس سے کم نہیں ہو سکتی۔ 
میں سمجھ گیا کہ طالب علم کو کتاب پہلی اچھی لگی ہے لیکن وہ قیمت دوسری کی دینا چاہتا ہے۔ یقین جانئے اس وقت مجھے ایسا لگا کہ کتاب لینے والا کوئی اور نہیں بلکہ میں خود ہوں اور ساتھ ہی دماغ میں یہ خیال بھی آیا کہ اگر میں کتاب کا اچھا نسخہ نہ لوں تو جب جب اس گھٹیا نسخے کو دیکھوں گا دل میں آئے گی کہ وہ کتاب کتنی اچھی تھی جو میں نے پیسوں کی وجہ سے چھوڑ دی۔ یوں اس موجود کتاب کی وقعت میرے لئے ختم ہو کر رہ جائے گی۔ چنانچہ میں نے طالب علم سے کہا کہ اچھے والا نسخہ لے لو اور ادنیٰ والے کے پیسے دے دو اور دکاندار سے کہا کہ فرق مجھ سے لے لو۔ یوں طالب علم کا مسئلہ حل ہو گیا اور کتاب لے کر خوشی خوشی دکان سے نکل گیا اور مجھے لگا کہ آج میں نے ایک خوبصورت کتاب خرید لی ہے جو زندگی بھر میرے پاس رہے گی۔ 
ذیل میں اس بارے میں اپنے ماضی کے چند واقعات پیش کرتا ہوں:
’’۔۔۔۔ ورائٹی بک سٹال میں بھی کچھ وقت گزارا۔ میں تو للچائی نظروں سے کتابوں کو دیکھتا رہا۔ جیب خالی تھی اس لئے کسی کتاب پر ’’ہاتھ نہیں ڈالا‘‘۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میری ذاتی لائبریری ہو جس میں ہر طرح کی کتابیں ہوں۔ اگر میں سب کو پڑھ نہ سکوں تو دیکھ کر جی بھر جایا کرے۔۔۔۔۔۔‘‘ (اتوار، ۵ جنوری ۱۹۹۲)
’’شام کو کینٹ گیا۔ اطلاع ملی کہ چچا جی نے مزید ایک ماہ کی رخصت کی درخواست بھیج دی ہے۔ عشاء کو واپس آ گیا۔ میرے پاس ’Anne Frankeگاڑی والے کو کرایہ دینے کے بعد صرف-/75 پیسے باقی رہ گئے تھے۔  ایک  ردی والے کے ہاں دو کتابیں ’’پھل کھیلی‘‘  اور ’

‘‘ کی مشہور عالم  ڈائری پسند کر کے رکھ گیا تھا کہ واپسی پر لے لوں گا مگر ۔۔۔۔۔۔ سے ادھار لیتے  شرم آئی۔  جب واپس  (صدر) پہنچا تو کتاب فروش بھی کھانے میں مصروف تھا مگر پھر بھی اس نے مجھے دیکھ لیا۔  اچھی یا پسندیدہ کتاب دیکھ کر میرا دل مچل جاتا ہے مگر جب جیب کی طرف نظر جاتی ہے  تو  معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے  اور جذبات پر اوس  پڑ جاتی ہے۔ کتاب فروش کو صرف  ـ/20 روپے دینا تھے ۔‘‘ (جمعرات، یکم جولائی 1999) (دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ دونوں کتابیں میرے پاس اب موجود ہیں۔ شاید اگلے ہفتے پیسوں کا بندوبست کر کے خرید لی ہوں گی۔)
’’

دوپہر کو کافی عرصے بعد صدر کے فٹ پاتھوں پر گھوما مگر کوئی کتاب ہاتھ نہ آ سکی۔  ’’بنات الصلیب‘‘  کے نام سے  ایک کتاب نظر سے گذری جس میں  ان صلیبی عورتوں کی تفصیل لکھی گئی ہے جو مسلمان  امراء  یا خلفاء کے حرم میں داخل ہو کر مسلمانوں کو اندر سے  کھوکھلا کرتی رہیں۔ قیمت پر اتفاق نہ ہونے کے سبب  چھوڑ کر آ گیا‘‘۔ (اتوار، 18 جولائی 1999)
عین ممکن ہے کہ یہ بات بہت سے لوگوں کے لئے بالکل فضول ہو کہ آدمی کتابیں جمع کرتا پھرے لیکن میرے لئے کتاب ایک انمول اور بے بہا چیز ہے۔ اس لئے جس شہر میں بھی رکنے کا موقع ملا ہے وہاں سے کوئی کتاب ضرور خریدی ہے۔ مثلا ابھی گلگت گیا تھا وہاں سے چھ کتابیں لایا۔ دو تحفے میں ملیں  اور چار خرید کر۔ اسی طرح حال ہی میں لوک ورثہ نمائش لگی۔ مجھے بالکل آخری دن وہاں جانے کا موقع ملا۔ لوگ طرح طرح کی چیزیں خرید رہے تھے لیکن وہاں  بھی میرے حصے میں دو چار کتابیں ہی آئیں۔ 
کسی زمانے میں  کوئٹہ سے گزرا تھا۔ وہاں سے بھی دو تین کتابیں لے لی تھیں لیکن ایک کتاب نہ لینے کا افسوس ہے۔ اس کتا ب کا موضوع سن کر آپ کو حیرت ہوگی کہ یہ یورپ کی چھ زبانوں میں ہر موقع کے لئے گالیوں کی  ڈکشنری تھی کہ ریلوے سٹیشن پر، بازار میں، میٹرو میں، ہوائی اڈے میں اور سڑک پر کسی کو گالی کس طرح دینی ہے۔ اسی طرح کابل کی یادگار  بھی چند کتابیں اور ایک اخبار ہے۔ سب سے پہلے مکہ مکرمہ کی حاضری اللہ نے نصیب فرمائی تو وہاں سے بھی چند کتابیں لے آیا۔ پشاور کے قصہ خوانی اور ترکی کے توپ کاپے کی یادگار بھی کتابیں ہی ہیں۔ مجھے خود سمجھ نہیں آتی کہ کتاب میرے لئے اس قدر اہم کیوں ہے کیونکہ اب تو پڑھنے کا وقت بھی نہیں لیکن پھر بھی اہم ہے اور  اس کا کوئی علاج نہیں۔ 
اس لئے اگر زندگی کے کسی موڑ پر آپ کی بھی اپنے آپ سے ملاقات ہو جائے تو شرمائیں مت اور حالات کی تبدیلی کے سبب اپنے آپ کو پہچاننے سے انکار نہ کریں بلکہ خوش دلی سے اپنے ماضی کو سینے سے لگائیں، اس سے ملیں اور اس سے پیار کریں۔ کیا پتہ اس سے آپ کی زندگی کو کوئی نیا رخ، کوئی نئی جہت یا نیا رستہ مل جائے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.