شفیق مراد
معظمہ نقویؔ کا پہلا شعری مجموعہ تخیل کے آسمان سے اترنے والی بارش کا پہلا قطرہ ہے جو اپنے اندر سوز وسازِ زندگی بھی رکھتا ہے اور شاعرہ کی ریاضت،مشاہدات اور تجربات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔وہ ماضی،حال اور مستقبل کے لیے موجِ نور کا کام کرتا ہے۔ وہ بارش کے اس پہلے قطرے سے اُس آخری بارش کی متمنی ہے جو علم و معرفت سے بنجر زمین کو جل تھل کر دے۔ ذرّے ذرّے سے مسرت و شادمانی کی شعاعیں ماحول کومنور کریں اور گردشِ وقت کے محراب سے امن و آشتی کے نغمے بلند ہوں۔ اور پھر آسمان پرقوسِ قزح سے نکلنے والی رنگ ونور کی شعاعیں دنیا کی تاریکیوں کو مٹا دیں۔ایک نئی زندگی جنم لے جس میں علم و آگہی کے چراغ روشن ہوں۔ اور معرفت کے چشمے دل اور ذہن کو سیراب کریں اور انسانیت کومعراج نصیب ہو۔
کبھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی شاعری اس کے عالم ارواح سے عالم وجود کے سفر کی پہلی منزل ہے جس میں سفر کی صعوبتیں بھی ہیں اور اسائشیں بھی۔ جن میں ہجر بھی ہے اور وصال بھی،دلِ بے مہر میں چبھتے ہوئے خوابوں کے سراب بھی ہیں اور اشکوں کے سمندر بھی۔غمِ زندگی کے نوحے اور ہچکیاں بھی ہیں تو گل وبلبل کے گیت بھی۔اس نے ان سب کو اکٹھا کر کے”آخری بارش“میں سمو دیا ہے۔ لیکن کوئی چیز آخری نہیں ہوتی۔جہاں اخیر ہوتی ہے وہاں سے آغاز ہوتا ہے نئی زندگی کا،نئی اُمنگوں کا۔خواہشوں کا بحرِ بیکراں اضطراب و جنوں کی کیفیت پیدا کرتے ہوئے اسے آگے قدم بڑھانے کا عزم دیتا ہے۔
معظمہ کی شاعری میں ہجر کاذکر ہے تو وصال کا بھی،و ہ عُمیق نظری سے انسانی رویوں اور نفسیات کے دیگرپہلوؤں پر بھی گل فشانی کرتی ہے۔اس کے ہجر میں یاسیت اور قنوطیت نہیں بلکہ رِجائیت ہے۔امید اور حوصلہ ہے۔اندھیری رات کے پس منظر میں اسے آفتاب کی کرنیں نظر آتی ہیں جو اس کے حوصلوں کو ٹوٹنے نہیں دیتیں بلکہ توانا رکھتی ہیں۔ اسے یقین ہے کہ وصل کا لمحہ انمول اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ مثلِ آفتاب و ماہتاب ماحول کو روشن کرے گا۔یہی سوچ شاعرہ کے تخیل کی پرواز کو بلند رکھتی ہے۔ان کی شاعری زمان و مکان کی پابندیوں سے آزاد ہو کر سوچ کو وسعت،خوابوں کو تعبیر اور امکان کو یقین میں بدل دیتی ہے۔ دراصل ہر شخص ہجر اور جدائی سے گزرتا ہے۔ کبھی وہ اپنی ذات کے اسرارو رموز سے لاعلمی کی بناء پر ان سے ُُجُدا ہوتا ہے۔ اور کبھی اپنی ذات کو تلاش کرتا ہے۔ وہ اپنے مقاصد سے دوری کی بناء پر حالتِ جُدائی میں ہوتا ہے۔ جن کے وصال کے لئے وہ تگ ودو کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری محبت،انتظار اور خیالات کو جذب کرنے کا ایک خوبصورت ذریعہ ہے۔ جو ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ہجر میں بہائے گئے آنسو وں کو شرف قبولیت عطا ہوتا ہے۔ وہ اپنی نظم۔۔ میں امید کی شمع اس طرح روشن کرتی ہیں۔
مجھ کو یہ معلوم ہے ساجن
تو آکاش کا ماہِ کامل
میں اِک،مدھم مدھم تارا
ٹوٹ کے اترا جو دھرتی پر
پھر بھی تیرے پاس آنے کی
اک امید ہے میرے دل میں
وہ اپنے رویوں میں مخلص ہے۔ تعلقات کے دو موسموں پر یقین رکھتی ہے۔ایک انتہائی التفات کا اور دوسرا انتہائی اختلافات کا۔اس کے پاس کوئی درمیانی راستہ نہیں جسے مصلحت یا منافقت کا راستہ کہتے ہیں۔اس کا رویہ فیصلہ کن ہے جب وہ اپنی نظم ”عہدِ وفا“میں کہتی ہے.
” میرے پریم کے دو موسم ہیں“
اس کی نظمیں روائتی آھنگ سے مطابقت رکھتے ہوئے جدت سے بھر پور ہیں۔ نئی تراکیب،نئے استعارے اور الفاظ پر گرفت اس کی اردو زبان پر دسترس کی عکاسی کرتی ہیں۔
انمول چاہتوں کی مالا،خواب کی جھولی،اندھے رتجگے،مضراب رگِ جاں،پائمال صد ستم ،پھاگن اندھی جدائی، جیسے الفاظ اور تراکیب کا استعما ل اس کے زخیرہ الفاظ کی وسعت کا پتہ دیتا ہے۔ اور شاعری میں جس ہُنر مندی سے ان کو شامل کیا ہے آپ کے فنِ شاعری پر دلالت کرتا ہے۔ یقینا معظمہ داد و تحسین کی مستحق ہیں ۔قابل داد ہیں۔
پائمال ِصد ستم ہوں میں برنگ عندلیب
شام کا شرمیلا آنچل،عنابی رنگت، تن کی اجلی دھات اور خلوتوں کے ہمراز جیسے الفاظ نگینوں کی طرح شاعری میں جڑے ہیں۔ بقول آتشؔ
؎ بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا
نظم”آخری بارش“تخیل،الفاظ اورانداز بیان کے لحاظ سے آپ کے فن کی عکاسی کرتی ہے۔وہ کہتی ہے۔
شمع اک صورت کی جلتی ہے نِگہ میں ہر گھڑی
برق بن کر تن پہ آگرتی ہے میرے بار بار
من کو تڑپاتی ہے اک زخمی پرندے کی طرح
روح پگھلاتی ہے میری دھیمی دھیمی آنچ سے
چھیڑے مِضراب رگِ جاں ماتمی انداز سے
قطرہ قطرہ تب اسی ابرِ کرم کا رات بھر
دامنِ دل کو جلاتا ہے یہ خرمَن کی طرح
پائمالِ صد ستم ہوں میں برنگِ عندلیب
آج تک بیٹھی تڑپتی ٕحسرتوں کی سیج پر
منتظر نقویؔ ہے سانسوں کی سلگتی ریگ پر
”آخری بارش“کی بوندوں کے برسنے کے لئے
جامِ امرت خشک ہونٹوں سے لگانے کے لئے
زندگی ترسی ہے میری زندگی کے واسطے !
اس نے کہیں کہیں انگریزی کے الفاظ بھی شامل کرنے کا تجربہ کیا ہے جو نظم کے تسلسل اور معانی کی روح کو مزید خوبصورت بنا دیتا ہے اور قاری کی سوچ کو وسعت عطا کرتا ہے ۔ اگر یہ تجربہ مقبولیت حاصل کر گیا تو بعید نہیں کہ رائج ہو جائے اور جو رائج ہو جائے وہ رواج بن جاتا ہے اور جو رواج بن جائے تو شائد کبھی اردو ادب میں اس کو تسلیم کر لیا جائے تاہم یہ کاوش بھی قابل داد ہے۔
اس کی شاعری میں تشنگی،نامکمل پن کا احساس،ہجر کا کرب،وصل کی لذت،وابستگی، اظہارِ محبت،حسرتیں،درد اور احساس، معاشرے کے مسائل،معاشرے اور معاشرے کے مسائل کی عکاسی کرتی ہیں۔ اسی طرح وہ نہ صرف نسوانی جذبات کی ترجمان ہے بلکہ محرومی میں ڈوبے ہوئے معاشرے کے ہر فرد کی ترجمان ہیں۔ ایک عورت ہونے کی حیثیت سے اس نے معاشرے کے مظالم،خونی رسم و رواج،خاندانوں کی نام نہاد برتری کی بھینٹ چڑھنے والی لڑکیوں کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے ایک معصوم کلی کے جذبات کی عکاسی اوربے بسی کی ترجمانی پُر اثر انداز میں کرتی ہے۔۔اس کی نظم ”کہاں کھو گئی“ایک معصوم کلی کی بے بسی کی ترجمانی کرتی ہے جس میں سنہری سپنے سجانے والی بالآخر
”اپنے چندا کو ڈھونڈتی ہے
سُنا ہے جی جی کے مر رہی ہے“
اس کی شاعری میں تشبیہات و استعارات اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔اگرچہ اس نے آزاد نظم کو ذریعہ خیال بنایا ہے تاہم شعریت اور نغمگی برقرار ہے اسلوب کی ندرت نے اس کے پاکیزہ خیالات کو زندگی عطا کی ہے۔ ڈوبتے سورج اور چاندنی راتوں کے ساتھ اماوس بھی ہے ۔جو اس کے جمالیاتی حس کی عکاسی کرتی ہیں۔تصویر کشی اور منظر کشی بھی اپنی مثال آپ ہے جب وہ کہتی ہیں
دن کی گہری سی دید کو چھونے
ایک سرخی سی اتر آئی ہے
گویا نیلے گگن کی جھولی میں نرمئی آفتاب سمٹی ہے
ہجر کی برف برف دھرتی پر
سرخ کرنوں کا رقص جاری ہے
ڈھل گیا دن تو نرم گیں لے پر
شب کے آنگن میں نور لہرایا
اور پھر اپنی پلکیں جھپکائیں
چاند نے رات کی کی سیاہی میں
عمر جو جاگ کر بتائی ہے
اس کی تھوڑی سی سمجھ آئی ہے
اردو شاعری میں آزاد نظم کا سفر جو محمد اسما عیل میرٹھی سے شروع ہوا اور تصدق حسین خالد، ن۔ م راشد اور میرا جی نے اس صنفِ شاعری میں نام پیدا کیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔معظمہ نقویؔ قلم کے اسی قافلے میں شامل ہیں۔
میں آخر میں اتنا کہوں گا کہ انہوں نے تخیلات کے دریا کو حسنِ بیاں کے کوزے میں بند کیا ہے۔
دعا گو
شفیق مراد
چیف ایگزیکٹو
شریف اکیڈمی جرمنی
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.