کتاب : ریاض نامہ، تبصرہ نگار: تہذین طاہر
تبصرہ نگار:تہذین طاہر
زیر نظر کتاب ریاض نامہ”شیخ ریاض“ کی خود نوشت اور کالموں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کو یادوں کے چراغ جلا کر روشن کیا گیا ہے۔ ماضی خوبصورت ہو تو آپ کا گزرنے والا ہر لمحہ ماضی کی انہی خوبصورت یادوں کو یاد کرتے گزر جاتا ہے۔ ریاض نامہ میں شیخ صاحب نے بھی اپنی زندگی کے انہیں خوبصورت دنوں کو یاد کیا ہے۔ زندگی کا سفر آسان نہیں ہوتا۔ تکلیف، درد، امتحانات سے گزر کر ہی انسان ایک ایسے مقام تک پہنچاتا ہے کہ لوگ اسے جاننے لگتے ہیں۔ اس کی ایک الگ پہچان بنتی ہے۔ ہم انسان اس دنیا میں کسی نہ کسی مقصد کے تحت بھیجے گئے ہیں۔ کوئی شخص اپنے مقصد کو جلد پا لیتا ہے تو کوئی اپنا مقصد پورا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ انسان کو ایک ہی بار زندگی ملتی ہے۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اپنی تخلیق کا مقصد حاصل کرکے اسے پورا کریں۔
زیر نظر کتاب کے مصنف شیخ ریاض کی بات کریں تو انہوں نے مئی 2018ءسے لکھنا شروع کیا اور پھر ایسا لکھا جسے دنیا نے جانا، مانا اور اقرار کیا کہ لکھنا آسان کام نہیں۔ اب تک آپ کے کئی کالمز قارئین تک پہنچ چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
زیر نظر کتاب آپ کی خودنوشت ہے۔ کتاب میں نہ صرف آپ نے اپنی زندگی میں کئے جانے والے سفر اوراپنے تجربات کا ذکر کیا ہے بلکہ اپنے کچھ کالمز بھی شامل کئے ہیں۔ آپ کا لکھا جانے والا سب سے پہلا کالم جس کاعنوان”جھوٹ“ تھا وہ بھی اس میں شامل ہے۔ کتاب کے آخر میں افسانے لکھے گئے۔ جس سے مصنف کی تخلیق صلاحیت کے اس پہلو کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
ریاض نامہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں شروع ہونے والا ہر عنوان ایک تصویر کے ساتھ پڑھنے کو ملتا ہے۔ کتاب میں مصنف کی زندگی کے حوالے سے بہت سے تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ جس نے کتاب کی خوبصورتی کو دوبالا کر دیا ہے۔ کتاب کا انتساب”انسانیت سے محبت کرنے والے ہر انسان کے نام“ کیا گیا ہے۔
شیخ ریاض لاہور میں پیدا ہوئے اور اکیس سال کی عمر میں وطن عزیز پاکستان کو خیرباد کہہ کر سمندر پار عازم سفر ہوئے۔ کچھ عرصہ ایران، عراق میں گزارنے کے بعد، گزشتہ چند سالوں سے مستقل طور پر جرمنی میں سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہ شیخ ریاض صاحب کی اردو سے محبت ہی ہے کہ اتنا عرصہ اپنے وطن سے دور رہنے کے بعد جب لکھنے کا آغاز کیا تو اردو میں کیا۔ اور پھر اپنی خودنوشت بھی اردو میں مرتب کی۔
کتاب کے بارے میں شیخ ریاض کہتے ہیں!” اپنی سوانح حیات لکھنے کا خیال بہت پرانا ہے لیکن ذاتی کاہلی اور خاندانی مصروفیات کی وجہ سے یہ کتاب اب شروع کی ہے۔ میں ایک معمولی لکھاری اور نوشت وخواند کا طالب علم ہوں۔ فیصلہ یہ کرنا تھا کہ یہ تحریر کس زبان میں ہو، انگریزی، جرمن یا اردو۔ پاکستان میں سرکاری سکولوں میں مجھ جیسے پڑھنے والوں کو انگلش پر مکمل عبور حاصل نہیں ہوتا اور جرمن زبان پاکستانی قارئین کے لیے موزوں نہیں تو اردو زبان میں لکھنے کا انتخاب کیا ہے۔ اگرچہ میری مادری زبان پنجابی ہے۔ آج کل میری گفتگو، ان چاروں زبانوں کا آمیزہ ہوتی ہے۔ دوسرا مرحلہ انتخاب عنوان تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد کتاب کا نام ”ریاض نامہ“ منتخب کیا ہے۔
اتنی طویل زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حالات انسان کافی حد تک بھول چکا ہوتا ہے۔ ہاں اگر روزانہ کی بنیاد پر ڈائری لکھی جائے تو یہ سوانح عمری لکھنے میں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ یا پھر وقت تحریر ایسا ہو کہ واقعات زندگی، دماغ کے کسی گوشہ میں محفوظ ہوں اور غلطی کا شائبہ نہ رہے۔ یہ میری پہلی تخلیق ہے۔
میں کوئی سیاستدان، کوئی عالم اور نہ ہی کوئی مشہور شخصیت ہوں۔ میں ایک عام انسان ہوں۔ میں نے اپنی زندگی کے چھپن سال اپنے آبائی وطن پاکستان سے باہر گزارے ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ وقت جرمنی میں گزرا ہے۔ کچھ عرصہ میں نے ایران، عراق، میں بھی گزارا ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے بہت سے ممالک میں بطور سیاح بھی جا چکا ہوں۔ میں نے زندگی کے اس طویل سفر میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ ان کا سامنا کرنا پڑا۔ جدوجہد کی اور گھبرانے کی بجائے ان مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کو خوش اسلوبی سے حل کیا۔
پاکستان میں رہتے ہوئے، مجھے کبھی بھی ایسے تجربات نہ ہوتے جو بیرون ملک رہتے ہوئے پیش آئے۔ میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ غیر ملک میں رہتے ہوئے مجھے انسانیت کو سمجھنے میں بہتر مدد ملی۔ جس کو میں پاکستان میں تمام زندگی گزارنے کے باوجود نہ سمجھ سکتا تھا۔ میرے تجربے کا نچوڑ ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور مجھ سے بھی زندگی میں بہت غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن میں نے ان غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ انسان کو اپنے اصولوں پر کبھی بھی دوسرے مفادات کو ترجیح نہیں دینی چاہیے اور اپنے اصولوں پر ہمیشہ پابند رہنا ضروری ہوتا ہے، اس کے علاوہ پاکستانی قارئین کو”ریاض نامہ“ پڑھنے کے بعد، جرمن معاشرے، جرمن قوانین اور جرمنی سے متعلق دوسرے معاملات سے آگاہی ملے گی۔
میں نے اپنی زندگی کے تجربات کو”ریاض نامہ“ میں لکھا ہے۔ یہ کتاب لکھنے کا اولین مقصد یہ ہے کہ آنے والی نسلیں میری طویل زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے مستفید ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ قارئین اس کتاب کو پسند فرمائیں گے”۔
اپنی زندگی کی کہانی کو 238 صفحات پر اتارنے کے بعد کتاب کے اختتام پر ریاض صاحب لکھتے ہیں۔
””ریاض نامہ“ ختم ہوگیا۔ میری زندگی کے سفرنامے کے حالات جو ذاتی نقطہ نظر سے تحریر کیے گئے ہیں، آج کی تاریخ یعنی…. فروری2023ءتک ملرسٹرا سے برلن میں مکمل ہوگئے۔ ہو سکتا ہے چند سال مزید جیوں۔ اگر اتفاقاً کوئی حادثہ پیش نہ آیا تو یوں بھی مستقبل کا حال لکھنا ممکن نہیں۔
حکیم جلیل سقراط کا قول ہے کہ مجھے نہیں معلوم موت کیا ہے۔ ممکن ہے وہ کوئی اچھی چیز ہو اس لیے میں اس سے نہیں ڈرتا۔ مگر یہ میں خوب جانتا ہوں کہ اپنے فرض سے منہ موڑنا برا ہے اور جس چیز میں بھلائی کا احتمال ہو اسے میں اس چیز پر ترجیح دیتا ہوں جس کی برائی کا یقین ہے۔ مستقبل کا کوئی اندازہ نہیں کیونکہ کتاب زندگی کے اگلے ورق سر بمہرہیں۔
میری داستان بہت سے اوورسیز پاکستانیوں کی داستان بھی ہو سکتی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ جرمن معاشرے کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ میں نے پاکستانی معاشرے یا دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے واقعات اور حالات کو مخفی نہیں رکھا ہے۔ ریاض نامہ میں زندگی کے مختلف پہلوﺅں کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستانی اور جرمن معاشرے کا موازنہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
میں گزشتہ پینتالیس سال سے برلن میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہوں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ریاض نامہ میں برلن اور جرمنی کی تاریخ، ثقافت اور تاریخی عمارات پر قارئین کو معلومات مل سکیں۔ مثلاً بہت سوں کو مغربی اور مشرقی جرمنی کے متعلق کچھ آگاہی دینا بھی میرا مشن تھا۔ میری ذاتی رائے میں جرمن معاشرے میں رہتے ہوئے اور جرمنی میں تقریباً تمام عمر گزارنے کے بعد میری سوچ میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ جرمنی میں مستقل قیام کے تجربات اور مشاہدات سے مجھے لگتا ہے کہ اگر انسان کی جڑیں جرمنی میں نہیں ہیں یعنی آباﺅ اجداد جرمن نہیں تھے یا جرمنی میں نہیں تھے تو انسان کبھی بھی”جرمن“ نہیں ہو سکتا۔ میرے جیسے اکثریتی غیر یورپین باشندوں کو یہاں اپنی اصلی شناخت نہیں ملتی۔ خصوصاً ان کے جرمنی میں پیدا ہوئے بچوں کو وہ درجہ نہیں دیا جاتا جو جرمن نژاد اور ان کے بچوں کو ملتا ہے جس کی وجہ سے وہ غیر مطمئن رہتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے جرمن قوانین میری جوانی کے دورانیے کے برعکس موجودہ دور میں غیر یورپین باشندوں کے لیے مثبت سمت میں بدل چکے ہیں۔
اس کتاب میں جرمن زبان، کلچر اور تاریخ کے متعلق بھی تحریر کیا گیا ہے۔ مثلاً جرمن زبان کی خاصیت یہ ہے کہ جیسے الفاظ لکھے جاتے ہیں ویسے ہی ان کو پڑھا جاتا ہے۔ مثلاً لاہور کو جرمن زبان میں آخر میں’ای‘ کی وجہ سے”لاہورے“ پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب”آر“ آخر میں لکھا جائے تو وہ بولتے ہوئے حذف ہو جاتا ہے۔
جرمنی کے متعلق ایک قابل تعریف بات ہے کہ مغربی اور مشرقی جرمنی کے باشندوں نے چالیس سال مختلف نظام حکومت کے تحت بھی کبھی ایک دوسرے سے نفرت نہیں کی تھی اور نہ ہی کبھی آپس میں جنگ وغیرہ کی تھی۔ جبکہ دنیا میں کانگو، ایتھوپیا، ویت نام، کوریا وغیرہ میں ایک قوم کے ہوتے ہوئے بھی آپس میں بہت نفرتیں تھیں۔
میں پچپن سال سے پاکستان سے باہر رہنے کے باوجود اپنے آپ کو پاکستانی تصور کرتا ہوں۔ جرمن پاسپورٹ وصول کرتے اور پاکستانی پاسپورٹ واپس کرتے وقت میں تذبذب کا شکار تھا اور میری حالت ناقابل بیان تھی۔ لیکن مجبوری تھی۔
آخر میں، میں یہ لکھنا ضرور چاہوں گا کہ مجھے یہ ہمیشہ تشنگی رہے گی کہ جن خواتین و حضرات کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کے بہترین لمحات گزارے تھے/ ہیں، ان میں اکثر لوگ اب حیات نہیں ہیں یا ان لوگوں سے میرے روابط نہیں ہیں“۔
دیکھا جائے تو زندگی اسی کا نام ہے۔ کوئی مل گیا تو کوئی بچھڑ گیا۔ وقت کا دھارانہیں روکتا وہ چلتا جاتا ہے۔ ہاں البتہ جانے والی کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔
اشاعت کی بات کریں تو زیر نظر کتاب ریاض نامہ بھی پریس فار پیس فاﺅنڈیشن کا کارنامہ ہے۔ اس ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی کتب نہ صرف لکھاری کو بلکہ قاری کو حیران کر رہی ہیں۔ اتنے کم عرصہ میں بے شمار کتابوں کی اشاعت پر پریس فار پیس کا ہر رکن مبارک باد کا مستحق ہے۔ ریاض نامہ 244 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کی قیمت 1900/- روپے ہے۔ کتاب کالے آﺅٹ سید ابرار گردیزی نے ڈیزائن کیا ہے جبکہ کمپوزنگ محمد احمد رضا انصاری نے کی۔
کتاب حاصل کرنے کے لیے ان ای میلز پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
info@pressforpeace.org.uk.
٭….٭….٭
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.