تبصرہ : راشد جاوید احمد
گزشتہ سات آٹھ برسوں میں اردو افسانہ نگاروں کے کئی نئے نام سامنے آئے ہیں اور کرونا کے دنوں میں جب تقریباً تمام سرگرمیاں آن لائن ہو گئیں تو ان نئے لکھنے والوں کی تخلیقات بھی پڑھنے کو ملیں۔ میرے لیے ان ناموں میں ایک نام صبیح الحسن کا بھی ہے جس کے افسانے مختلف ادبی فورمز پر پڑھنے یا سننے کا اتفاق ہوا۔ صبیح نے اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ”جہنم کا کیو بیکل نمبر 7“ بڑی محبت سے مجھے عنایت کیا۔ شکریہ صبیح۔
اس مجموعے میں 14 افسانے اور 21 افسانچے شامل ہیں۔ منفرد نام اور اسلوب کے اعتبار سے یہ مجموعہ قابل ستائش ہے۔ ہر افسانے کا ایک اپنا الگ رنگ ہے اور یہ سارے رنگ مل کر صبیح الحسن کے اسلوب کو نمایاں کرتے ہیں۔ افسانوں کے خیال آفرین عنوان جیسے کہ۔ ”پھیکی چائے“ ، ”بارش نہیں ہو رہی“ ، ”ڈائری میں چھپا ہوا خواب“ ، ”زندگی کی موت،“ تشموگول ”،“ جہنم کا کیوبیکل نمبر 7 ”،“ کندھوں پر دھری لاش ”، قاری کی توجہ پڑھنے کی طرف مبذول کرتے ہیں۔ ان افسانوں میں کہیں طنز ہے کہیں ادھورے اور پورے نہ ہونے والے خوابوں کا المیہ ہے۔ کسی افسانے میں امید کی کرن چمکتی ہے تو کہیں مایوسیوں کے گہرے بادل ہیں۔ کہیں تنہائی سر چڑھ کے بولتی نظر آتی ہے۔ کہیں کرداروں کی نفسیات نگاری ہے۔
اس مجموعے میں موضوعات کا تنوع ہے جو قاری کی دلچسپی برقرار رکھتا ہے۔ صبیح الحسن تلخ معاشرتی اور سماجی حقائق کا افسانہ نگار ہے۔ حقیقت میں افسانوی رنگ بھر کر وہ اس کی تلخی کم کرنے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن قاری اس میں اپنی ہی آگ کی تپش محسوس کرتا ہے۔ اور یہی کسی افسانہ نگار کا اولین کام ہے کہ اپنے ارد گرد کے سماجی، معاشی اور معاشرتی حالات سے قاری کو آگاہ کرے اور ہو سکے تو ان کا حل بھی تجویز کرے۔
ان افسانوں میں علامتی اور تجریدی افسانے بھی شامل ہیں۔ گو کہ اب زمانہ راست بیانیے ہی کا ہے اور علامتی اور تجریدی افسانہ بہت کم لکھا جا رہا ہے۔ پوسٹ ماڈرن افسانہ بھی اپنی اشکال تبدیل کر رہا ہے اس لیے یہ بحث بے معنی ہے کہ افسانے کی تکنیک کیا ہے۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ افسانہ نگار نے کیا کہا ہے، کس کے لیے کہا ہے اور کہنے کا مقصد کیا ہے اور آیا وہ اس سب میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں۔ صبیح الحسن اس سارے پراسس میں کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ ”بجازو“ کی صورت میں وہ ایک اچھی طنزیہ کہانی لکھتا ہے البتہ ”امر کر دیا“ کے بعد کا پیراگراف اضافی لگتا ہے۔
” پھیکی چائے“ ، ”ڈائری میں چھپا خواب“ ، ”پتلے“ اور ”نوروز“ اچھے افسانے ہیں۔
” بارش نہیں ہو رہی“ مجھے اس مجموعے کی سب سے اچھی اور سفاک کہانی لگی۔ میں اس افسانے کے نام پراس مجموعے کا نام رکھتا۔
” پتلے“ سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کوئی اچھا موٹی ویٹر ہو تووہ کس طرح انسانی نفسیات سے کھیلتا ہے اور لوگ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
” سراب“ کے مطالعے کے بعد یہ تاثر ملتا ہے کہ صبیح الحسن اچھی جاسوسی کہانی بھی لکھ سکتا ہے۔
” تشمو گول“ اور ”جہنم کا کیو بیکل نمبر 7“ گہری علامتی لیکن جدید کہانیاں ہیں لیکن آج کا قاری اور خاص طور پر سنجیدہ قاری ان علامتوں کو بخوبی سمجھتا ہے۔
مجموعی طور پر صبیح کے افسانوں میں زبان و بیان کی چاشنی، خوبصورت جملے، پرانے موضوعات کا تنوع اور نیا ٹریٹمنٹ، تشبیہات و استعارات، تخیل اور سماجی گھٹن کا مشاہدہ، شدت احساس اور تخلیق فن پوری طرح موجود ہیں۔ وہ آج کے افسانہ نگاروں میں ایک موثر آواز ہے۔ افسانوں کے اس پہلے مجموعے پر صبیح الحسن کو بہت سی داد۔
کتاب میں شامل افسانچے بھی افسانوں جیسی دلکشی اور چاشنی رکھتے ہیں بس ذرا طوالت کم ہے۔
کتاب کا سرورق خوبصورت اور دلکش ہے۔ مصنف کا تعارف بھی اچھی روایت ہے-
یہ دیدہ زیب کتاب پریس فار پیس فاونڈیشن۔ برطانیہ نے شائع کی ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.