منیرہ احمد شمیم
رباب عائشہ کی کتاب ۔۔۔ سدا بہار چہرے ۔ جو چند دن پہلے ہی منظر عام پر آئی ہے۔ ان کی یہ کتاب اس وقت مجھ سے محو گفتگو ہے۔ اس حسین موسم میں کتاب پڑھنا کوئی عجیب بات نہیں ۔۔
کھڑکی کھولی تو باہر کی فضاء پر بہار تھی ۔ایسے موسم میں کتاب پڑھنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے۔
رباب عائشہ کی یہ کتاب یادوں کا خوبصورت البم ہے ۔ جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اپنی تحریروں کو اُجاگر کیا ہے ۔
بیتے دنوں کی یادوں کو قلم بند کرنا ۔۔۔ اور
پھر ماضی کے گزرے ماہ وسال سے گرد جھاڑنا بڑا صبر آزما کام ہے۔ ۔۔۔ مگر یادوں کا کیا ہےوہ تو کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتی ہیں ۔
جس طرح موسموں کے اثرات مختلف احساسات کو جنم دیتے ہیں اور انسان کو کسی دوسری دنیا میں لے جاتے ہیں ۔۔۔ اسی طرح کچھ آوازیں انسان کو ماضی کے کسی دریچے میں لا کھڑا کرتی ہیں ۔ اور بیتے ہوئے لمحات کرنوں کی طرح چمکنے لگتے ہیں ۔
رباب عائشہ کی یادوں کا ایک سلسلہ ہے ۔
ماضی کی گم شدہ تصویریں ۔۔۔ ایک فنکار یا لکھاری ہی اپنی تحریروں میں اجاگر کرتا ھے ۔ انسان تخیل ہو جاتا ھے ۔ ۔۔۔ لفظ زندہ رہ جاتے ہیں
اور لفظوں میں کہی ان کہی باتیں زندہ رہتی ہیں ۔
انسان اپنی زندگی کے اس طویل سفر میں ہزاروں لوگوں سے ملتا ہے۔ اور کچھ شخصیات اپنا انمٹ نقوشِ چھوڑ جاتی ہیں ۔ رباب عائشہ نے انہیں میں سے کچھ گوہر نایاب ہستیوں کو اپنی تحریروں میں اجاگر کیا ہے ۔
صحافت سے وابستہ رہی ہیں ۔اس دوران ان کی رباب عائشہ کے فکر وخیال کا کنیوس وسیع ہونے کا سبب یہ بھی ہےکہ وہ ایک طویل عرصہ
ملاقاتیں بے شمار نامہ گرامی شخصیات سے ہوتی رہی ہیں ۔جن میں ایسے سیاسی ۔ سماجی ۔ ادیب ۔ شاعر اور آرٹسٹ ۔بھی شامل ہیں ۔ جو اپنے شعبوں میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے ۔ رباب عائشہ نے ان سب کے ساتھ اپنی محبت ۔ شفقت اور دوستی کی ڈور کو کچھ یوں باندھے رکھا ہے۔۔ کہ وہ اپنے ساتھ قاری کو بھی ماضی کی ان ساعتوں میں لے جاتی ہیں جہاں کوئی اجنبی نہیں رہتا ۔ اور وہ شخصیت ہمارے جذباتی وجود کا حصہ معلوم ہونے لگتی ہے ان کی شخصیت کے تمام پہلو کھل کر سامنے آ جاتے ہیں ۔
جنہیں ہم کبھی ملے نہیں ۔۔۔۔ ان سے ملاقات کی خواہش دل میں جنم لینے لگتی ہے۔ رباب عائشہ کی خاکہ نگاری اتنی عمدہ ہے کہ
ماضی کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے وہ اپنے خاندانی
کرداروں کی جو تصویر کشی کرتی ہیں وہ بڑی منفرد اور دلپزیر ہے۔ ہر کردار اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ سامنے آ جاتا ہے ۔ کچھ لوگ دنیا میں نہیں ۔۔۔ مگر رباب عائشہ کی اس خودنوشت میں محفوظ ہو کر رہ گئے ہیں ۔
انہوں نے کچھ ایسی شخصیات کو بھی بیان کیا ہے جنہیں پڑھ کر ان کی شخصیت پر رشک آتا ہے۔
اتنے فراخدل لوگ اب کہاں ملتے ہیں ۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو کسی اونچے مقام پر پہنچ کر بھی انکساری کی تصویر بنے رہتے ہیں ۔ کتاب پڑھ کر محسوس ہوا کہ کیسے کیسے گوہر نایاب ماضی کی گرد میں دفن ہیں۔
بات کی جائے رباب عائشہ کے ادبی سفر کی ۔۔۔
تو وہ دنیا ادب کی معروف شخصیت ہیں۔ ان کے ادبی سفر کی بہت سی جہتیں ہیں انہوں نے ہر جہت میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔ ان کے
فکر وخیال کے نقوش بڑے دل کش پیرایوں میں ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ ۔۔۔ انہوں نے کہیں کالم نگار بن کر اپنے دل کی باتوں کو زبان دی ۔ ۔۔۔ کہیں بچوں کے لئے خوبصورت کہانیاں لکھیں ۔۔۔ غرض جو بھی کتابیں لکھیں وہ ان کے علمی سفر کی آئینہ دار ہیں۔
وہ اپنے خیالات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرتے ہوئے ان کو رشتہ جاں رکھنے میں کامیاب رہی ہیں ۔
تصورات زندگی کی جمالیاتی صورت گری بھی ہے۔ ان کے انداز بیاں میں بے ساختگی ، جذبہ ، خلوصِ اور محبت کے ساتھ ساتھ ان کے
ادبی زبان کی مٹھاس اور روانی ان کے خاکوں کی بڑی خوبی ہے ۔
رباب عائشہ کی یہ یاداشتیں پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ انہوں نے اپنی یادوں کے بے شمار
واقعات قرطاس وقلم کے ذریعے ایسے لکھے ہیں
جن میں وہ اپنے چاہنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے محبت آمیز اور عقیدت سے سرشاری رہی ہیں ۔
۔ عہد حاضر سے منسلک کر کے ایک بہت بڑا کام کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتی ہوں سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے کو
عہد حاضر سے منسلک کر کے ایک بہت بڑا کام کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتی ہوں
میری دعا ہے رباب عائشہ کا قلم ایسے ہی
لفظوں کو پھولوں کی مانند بکھیرتا رہے اور ادبی
دنیا میں ان کی خوشبو پھیلتی رہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.